فقہ حنفی اور جمہوریت

د ويکيپېډيا، وړیا پوهنغونډ له خوا

فقہ حنفی اور جمہوریت[سمول]

فقہ حنفی اور جمہوریت

(تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

الحمد للہ الذی قال ان الحکم الا للہ والصلوۃ والسلام علی رسول و علی اٰلہ

و اصحابہ الذین سعوا لاقامۃ نظام دین اللہ المعبر باعلائ کلمۃ اللہ اما بعد

اللہ فرماتے ہیں ۔ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا یعنی اللہ کی رسی  (جس سے مراد قرآن ہے) کو سب مل کر مضبوط تھامو، اور قرآن کریم سے تھسنک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بلکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور یاک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کر لیتی ہے، اور اس سے ہٹ کر ان کی قومی و اجتماعی زندگی تو تباہ ہوہی جائیگی اور اس کے بعد انفرادی زندگی کی بھی کوئی خیر نہیں یہاں سب سے پہلے یہ جاننا لازمی ہے کہ وحدت و اتفاق کے لئے ضروری ہے کہ اس وحدت کا کوئی خاص مرکز ہو پھر مرکز وحدت کے بارے میں اقوام عالم کی راہیں مختلف ہیں، کہیں نسلی اور نسبی رشتوں کو مرکز وحدت سمجھا گیا ، جیسے قبائل عرب کی وحدت تھی کہ قریش ایک قوم اور بنو تمیم دوسری قوم سمجھی جاتی تھی ، اور کہیں رنگ کا امتیاز اس وحدت کا مرکز بن رہا تھا، کہ کالے لوگ ایک قوم اور گورے دوسری قوم سمجھے جاتے کہیں آبائی رسوم  و رواج کو مرکز وحدت بنایا گیا تھا، کہ جو ان رسوم کے پابند ہیں وہ ایک قوم اور جو ان کے پابند نہیں وہ دوسری قوم جیسے ہندو اور آریہ سماج قرآن کریم نے ان سب کو چھوڑ کر مرکز وحدت حبل اللہ قرآن کریم یعنی اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے نظام محکم کو قرار دیا، اور دو ٹوک فیصلہ کر دیا کہ مومن ایک قوم ہے جو حبل اللہ سے وابستہ ہے، اور کافر دوسری قوم جو اس حبل متین سے وابستہ نہیں، خلقکم فمنکم کافر و منکم مؤمن (64: 2 )  کا یہی مطلب ہے،جغرافیائی وحدتیں ہر گز اس قابل نہیں کہ ان کو مرکز وحدت بنایا جائے، کیونکہ وہ وحدتیں عموماًغیر اختیاری امور ہیں، جن کو کوئی انسان اپنے سعی و عمل سے حاصل نہیں کر سکتا ، جو کالا ہے وہ گورا نہیں ہو سکتا ، جو قریشی ہے وہ تمیمی نہیں بن سکتا ، جو ہندی ہے وہ عربی نہیں بن سکتا ، اس لئے ایسی وحدتیں بہت ہی محدود دائرہ میں ہو سکتی ہیں، ان کا دائرہ کبھی اور کہیں پوری انسانیت کو اپنی وسعت میں لے کر پوری دنیا کو ایک وحدت پر جمع کرنے کا دعویٰ کر ہی نہیں سکتا، اس  لئے قرآن کریم نے مرکز وحدت حبل اللہ یعنی قرآن اور خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کو بنایا، جس کا اختیاری امر ہے کوئی مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا ، گورا ہو یا کالا ، عربی زبان بولتا ہو یا ہندی و انگریزی، کسی قبیلہ یا کسی خاندان کا ہو ہر شخص اس معقول اور صحیح مرکز وحدت کو اختیار کر سکتا ہے اور دنیا بھر کے پورے انسان اس مرکز وحدت پر جمع ہو کر بھائی بھائی بن سکتے ہیں، اور اگر وہ آبائی رسم و رواج سے ذرا بلند ہو کر غور کریں تو ان کو اس کے سوا کوئی معقول اور صحیح راہ ہی نہ ملے گی، کہ خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کو پہچانیں ، اور اس کا ااتباع کرکے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھام لیں، جس کا نتیجہ ایک طرف یہ ہو گا کہ پوری انسانیت ایک مضبوط و مستحکم وحدت سے مربوط ہو جائے گی۔

دوسرا یہ کہ اس وحدت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کے مطابق اپنے اعمال و اخلاق کے اصلاح کرکے اپنی دنیوی اور دینی زندگی کو درست کر لے گا، یہ وہ حکیمانہ اصول ہے جسکو لے کر ایک مسلمان ساری دنیا کی اقوام لا للکار سکتا ہے ، کہ یہی صحیح راستہ ہے، اس طرف آؤ، اور مسلمان اس ر جتنا بھی فخر کریں بجا ہے، لیکن افسوس ہے کہ یورپ والوں کی گہری سازش جو اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے صدیوں سے چل رہی ہے وہ خود اسلام کے دعویداروں میں کامیاب ہو گئی اب امت اسلامیہ کی وحدت عربی، مصری، ہندی، سندھی میں بٹکر پارہ پارہ ہو گئی، قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت اور ہر جگہ ان سب کو بآواز بلند یہ دعوت دے رہی ہے کہ یہ جاہلانہ امتیازات نہ در حقیقت امتیازات ہیں اور نہ اُن کی بنیاد پر قائم ہونے والی وحدت کوئی معقول وحدت ہے، اس لئے اعتصام بحبل اللہ کی وحدت اختیار کریں، جس نے ان کو پہلے بھی ساری دنیا میں غالب اور فائق اور سر بلند بنایا اور اگر پھر ان کی قسمت میں کوئی خیر مقدر ہے تو وہ اسی راستہ سے مل سکتی ہے الغرض اس آیت میں مسلمانوں کی دو ہدایتیں دی گئی ہیں، اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کئ بھیجے ہوئے نظام حیات کے پابند ہو جائی، دوسرے یہ کہ سب مل کو مضبوطی کے ساتھ  نظام کو تھام لیں، تا کہ امت اسلامی کا شیرازہ خود بخود منظم ہو جائے، جیسا کہ اسلام کے قرون اولیٰ میں اس کا مشاہدہ ہو چکا ہے۔ ( مأخوذ از معارف القرآن مفتی محمد شفیع ، ج۲/ ص ۱۳۱)

مسئلہ : حاکمیت اعلیٰ اور حق التشریع یعنی قانون سازی اللہ تعالیٰ کے صفات ثبوتیہ اور جمالیہ میں سے صفت تکوین میں داخل ہے، اس لئے امام اہل سنت حضرت شیخ سرفراز خان صدر صاحب ؒ اپنی (دل کا سرور ، ص ۱۴) نامی کتاب میں لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: تمام اہل السنت والجماعت کا اشیائ کی حلّت اور حرمت ( یعنی قانون سازی ) کے باب میں تحقیق مسلک یہ ہے کہ تنہا خدا تعالیٰ کے اختیار کی چیز ہے ، کسی کو حلال (یعنی آئینی) یا حرام ( یعنی غیر آئینی) کرنا صرف اس کا کام ہے وہ اس میں منفرد ہے، اور یہ خالص اس کا حق ہے کسیدوسرے کو اس میں کسی نوع سے دخل نہیں ہے نہ بالذات کسی کو اختیار حاصل کے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار کسی کو تفویض کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: (ان الحکم الا للہ ) الایۃ : الانعام 57 حکم (یعنی قانون کسی کا نہیں سوا اللہ کے (ترجمہ شیخ الہند ؒ تفسیر عثمانی ص242 ) اور اسی طرح دوسری جگہ فرماتی ہیں: الا لہ الحکم ۔ الایۃ  : الانعام  62 سن رکھو حکم اسی کا ہے : (ترجمہ شیخ الہند ؒ تفسیری عثمانی ۔ ص 243 ) اور اسی طرح متعدد جگہوں میں یہی عقیدہ ثابت ہے جیسے سورۃ یونس آیات نمبر45 اور 67  اور سورۃ قصص آیات نمبر70 اور88 سوۃ اعراف آیات نمبر 54 و غیرہ سب اسی بات پر دال ہے کہ قانون ساز اور امختار کل صرف اللہ تعالی ہے۔

اور حضرت رسول اللہ ﷺ کو بھی تحلیل اور تحریم یعنی قانون سازی کا حق حاصل نہیں تو اوروں کو بطریق اولی حاصل نہیں چنانچہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں یہی الفاظ منقول ہیں۔ وانّی لست احرّم حلالاً و لا احلّ حراماً ولکنّ واللہِ ولا تجتمع بنت رسول اللہ ﷺ و بنت عدوّ اللہِ ابداً

ترجمہ: بلا شبہ میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرتا  ( اور نہ کر سکتا ہوں) لیکن بخدا رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور دشمن خدا کی بیٹی دونوں کبھی یکجا نہیں ہو سکتیں۔ (صحیح البخاری جلد ۱/ ص438) ، (صحیح مسلم  جلد ۲/ ص290) اور اسی طرح دوسری جگہ فرماتی ہیں قال علیہ السلام : ایّھا النّاس انّہ لیس لی تحریم ما احلّ اللّٰہ لی ولکنہا شجرۃ اکرہ ریحھا  ترجمہ: اے لوگوں  جو چیز اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حلال کی ہے مجھے اس کے حرام کرنے کا کیا حق ہے لکن تھوم کی بو کو پسند نہیں کرتا  (صحیح مسلم جلد 1 / ص206) اور اس طرح ابو عوانہ وغیرہ میں بھی یہی  مضمون موجود ہے، اس صحیح اور صریح روایتوں سے یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کو حلال و حرام کرنے کا حق حاصل نہ تھا اور نہ یہ منصب نبوت میں داخل ہے بلکہ آنحضرت کے نائب ہو کر تحلیل و تحریم کی تبلیغ کرتا ہے ۔

اور حضرت شیخ سرفراز خان صفدر صاحب ؒ امت کا اجماع نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : میرا اور میرے تمام اکابر بلکہ حضرات صحابہ کرام ؓ ، تابعینؒ،  اتباع تابعینؒ  ،اور تمام آئمہ اہل النست والجماعت ؒ    ،کا اتفاقی عقیدہ ہے کہ تکوینی اور تشریعی طور پر حاکم ( یعنی قانون ساز) اور مختار صرف اللہ ہی ہے۔ (دل کا سرور ص13)

اور علامہ ابو جعفر النحاسؒ (المتوفی 338ھ ) فرماتے ہیں وھکذا سبیل الاحکام انّما تکون مِن قِبَلِ اللّٰہِ عزّو جلّ : ترجمہ: قوانین کا یہی طریق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے ہوتے ہیں۔ (الناسخ والمنسوخ ص 6)

حضرت شیخ الاسلام محمد بن  محمد ابو الیسر البزدودی الحنفیؒ (المتوفی 493 ھ )فرماتے ہیں ان الشارع للاحکام ھو اللّٰہ تعالی فی الحقیقۃ۔ ترجمہ: بلا شبہ حقیقت میں قوانین اور احکام کے لئے قانون ساز صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ (اصول شیخ الاسلام البزدودی ، ص27)

حضرت ابو حامد محمد بن محمد الغزال الطوسی ؒ الشافعی ( المتوفی 505) نے قانون ساز کے بحث میں فرمایا ہے ان لا حکم الا اللّٰہ ۔ ترجمہ: بے شک قانون سازی صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔ (المستصفی ص 8)

حضرت ابو محمد عز الدین عبد العزیز بن عبد السلام الدمشقی المقلب بسلطان العلماء ( المتوفی 660 ھ ) فرماتے ہیں لا حکم الا لہ ۔ قانون سازی صرف اللہ کے لئے ہے ۔ (قواعد الاحکام فی مصالح الانام ج ۲/ ص 158)

حضرت تاج الدین عبد الوھاب بن تقی الدین السبکی الشافعی (المتوفی 771ھ ) نے ابھی فرمایا ہے : لا حکم الا للّٰہ ۔ یعنی  قانون سازی نہیں سوا اللہ کے ۔ ( رفع الحاجب عن مختصر ابن الحاجب ص 482)

حضرت شیخ محقق کمال الدین  ابن الہمام الحنفی ؒ ( المتوفی 861 ھ )تحریر فرماتے ہیں: الحاکم لا خلاف فی انہ اللّٰہ رب العلمین  ترجمہ: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حاکم یعنی قانون ساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ (تحریر ج2/ ص26)۔

اور حافظ بد ر الدین عینی الحنفی ؒ  (المتوفی855ھ) تحریر فرماتے ہیں۔ ان التحلیل والتحریم من عند اللّٰہ لا مدخل لبشر فیہ ۔  بیشک تحلیل اور تحریم میں کسی بشر کا  دخل نہیں ہوتا (عمد القاری ج2 / ص 745)

حضرت العلامہ محب اللہ البھاری الحنفی ؒ (المتوفی 1119 ھ) تحریر فرماتے ہیں۔ لا حکم الا من اللّٰہ ۔ یعنی قانون سازی صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہی ہوتا ہے ۔ (مسلم الثبوت ص12) اور حضرت العلامۃ سعد الدین مسعود بن قاضی فخر الدین عمر بن برھان الدین عبد اللہ التفتازانی ( المتوفی 792 ھ ) تحریر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: فلا حکم الا حکمہ تعالٰی ۔ یعنی قانون سازی صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے ۔ ( التوضیح علی التنقیح مع شرحہ  المسمی بالتلویح ص 42)

اور یہی عبارت کم و بیش اصول فقہ کی اکثر کتب میں موجود ہے اور اسی مضمون کو علّامہ ابن امیر الحاج ؒ نے شرح تحریر الاصول جلد 2/ ص79  پر اور علامہ اسنوی شافعی ؒ نے شرح منہاج الاصول ج1 / ص21 پر نہایت بسط اور شرح کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ حکم تشریعی صررف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے رہا حکم رسول ، حکم رسول اہل اجماع اور حکم مجتہد تو وہ صرف اللہ عاتعالیٰ کے حکم کا مظہر اور کاشف ہوتا ہے حاکم صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

اور قیاس سے بھی یہی عقیدہ ثابت ہے چنانچہ علامہ شمس الحق افغانی دیوبندی حنفیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ : اب وہ قانون کس کا ہو ؟ انسان کا یا خدا کا ؟ تویہ ظاہر ہے کہ اس قانون عادلانہ کے بنانے والے کے لئے مندرجہ ذیل چار اوصاف کا ہونا ضروری ہے :

1۔     علم محیط،                      2۔     رحمت کاملہ،            3۔     قدرت تامہ،            4۔   غیرجانبداری

علم محیط اس لئے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے ہر پہلو کا علم رکھتا ہو ، اور  انسانی فوائد و حقوق کے متعلق اس کو انسان کے تمام ادوار حیات پر نظر ہو، یعنی دنیا م قبر، آخرت۔ تاکہ اس کا عادلانہ فیصلہ انسانی زندگی کے ان تمام منزلوں میں درست ہو ، ایسا نہ ہو کہ ایک دور کے لئے درست ہو ، اور باقی کے لیے غلط ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ فیصلہ انسان کے انفرادی نتائج کے لحاظ سے بھی درست ہو اور اجتماعی لحاظ سے بھی اور ظاہری نتائج کے لحاظ سے بھی اور گہرے اور عمیق نتائج کے لحاظ سے بھی مثلا : اگر انسان سود کے جواز ار رضامندی کے ساتھ زنا اور لواطت کے واجز کا قانون بنائے، جیسے یورپی قانون ہے، تو اس میں شخصی آزادی کے خوش نما جذبے تو لحاظ رکھا گیا ہے، لیکن ان سب میں سوسائٹی اور معاشرے کے اجتماعی ضرر ، اسی طرح سود کے عمیق نتائج یعنی حرص میں اضافی ، انسانی ہمدردی کے فقدان اور زنا اور لعاطت سے صحت جسمانی اور عملی قوتوں کی کمزوری کو مضرتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے، نیز قبر و آخرت میں جو ان پر عذاب ہو گا، کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

رحمت کاملہ سا لئے ضروری ہے کہ قانون عادلانہ کی تدوین کت وقت غفلت نہ برتی جائے، اور دیدہ دانستہ قانون میں ایسے اجزاء شامل نہ کر دے جو خلاف انصاف ہوں۔

قدرت کاملہ اس لیے ضروری ہے کہ کسی دباؤ میں آکر راہ عدل سے انحرا ف کر دے یا مجرم کو سزا دینے میں کمزوری نہ دکھائے ۔

لا جانبداریت یعنی قانون ساز کے لئے غیر جانبدار ہونا اس لئے ضروری ہے کہ وہ ہم قوم، ہم وطن ، ہم رنگ اور ہم زبان لوگوں کی طرف داری نہ کرے اور قانون سازی میں ان کی رعایت کرکے اوروں کو نقصان نہ پہنچائے ، جیسے کہ اہل یورپ آج کل ایسا کرتے ہیں۔

یہ چار صفات جو قانون عادلانہ کی تشکیل کے لئے ضروری ہیں وہ صرف ذات خداوندی میں موجود ہیں، نہ اس کے براب کسی کا علم محیط ہے ، نہ اس کے برابر کسی کی رحمت ، اللّٰہ ارحم بعبادہ من الام بولدھا: خدا کی رحمت اس سے زیادہ ہے جو ماں کو اولاد پر ہے۔

نہ اس کے برابر کسی کی قدرت ہے کہ کسی سے دب کر قانون بنانے میں اس کی رعایت کرے، یا مجرم کی سزا میں کسی سے ڈر ے، اور صرف خدا کی ذات ہے جو غیر جانبدار ہے، نہ وہ کسی کے ساتھ قومیت یا وطن میں شریک ہے کہ ہم قوم اور ہم وطن لوگوں کی رعایت کرے ، نہ کسی کا ہم رنگ اور ہم زبان ہے، بلکہ وہ ایسی ذات ہے جو ( لم یلد ولم یولد ) (لیس کمثلہ شی ) نہ اس کی نسل ہے ، نہ کسی سے سرکت ہے۔ اس لئے قانون عادلانہ  جو انسان کا فطری حق ہے، وہ صرف اسی ذات سے مختص ہے۔ سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے۔ حکمراں ہے اِک وہی، باقی بتان آذری۔

(ان الحکم الا للہ ) قانون بنانا صرف خالق کائنات کا حق ہے۔ اور وہی قانون خداوندی ، وحی الٰہی اور احکام ربانی یا قرآن کا نام ہے، لہذا قرآن کی ضرورت نوع انسانی کے لیے ثابت ہوئی۔ بہر حال انسانی حقوق کے متعلق قانون خداوندی کے سوا کسی انسانی قانون کی حکمرانی جاہلیت کی حکمرانی ہے۔ ( افحکم الجاھلیۃ یبغون ط و من احسن من اللہ حکما لقوم یوقنون )

کیا لوگ انسان کے جاہلانہ قانون طلب کرتے ہیں، اللہ سے بہتر قانون کس کا ہے اس قوم کے لیے جو حقیقت پر یقین کرتی ہو ؟

شعر:۔

غیر حق چوں نا ہی و آمر شود

زور بر ناتواں قاھر نہ شود

زیر گردوں قاہری از آمری است

آمری از سوی اللہ کافری است

(اقبال مرحوم)

(علوم القرآن ص 17)

فائدہ:  اس لئے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ دنیا کوئی قانون ساز اسمبلی تمام موجودہ اور آئندہ پیش آنے والے حالات کا نہ پورہ اندازہ لگا سکتی ہے، اور نہ اُن سب حالات کی رعایت کرکے کوئی قانون بنا سکتی ہے، ہر ملک و قوم اپنے ملک اور اپنی قوم کے بھی صرف موجودہ حالت کے پیش نظر قانون بناتی ہے، اور قوانین میں بھی  تجربہ کرنے کے بعد بہت سی چیزیں عدل و اعتدال کے خلاف محسوس ہوتی ہیں ، تو ان کو بدلنا پڑتا ہے، دوسری قوموں اور دوسرے  ملکوں یا آئندہ حالت کی پوری رعایت کرکے ایسا قانون وضع کرنا جو ہر قوم ہر ملک ہر حال میں عدل و اعتدال کی صفت لئے ہوئے ہو، یہ انسانی فکر و نظر سے بالا تر ہے۔

(معارف القرآن جلد 3/ ص 430)

السوال:  کیا قانون سازی یا تحلیل و تحریم اللہ تعالیٰ کے صفات میں سے صفت تکوین میں داخل ہونے پر کسی کتاب میں تصریح موجود ہے ہم نے شرح العقائد میں صفات کے بحث میں نہیں پڑھا ہے کہ تحلیل و تحریم بھی صفات تکوین میں داخل ہے ؟

الجواب : حامداً و مصلّیاً و بعد :

جس طرح صفت خلق یعنی پیدا کرنا صفت تکوین میں داخل ہے اسی طرح صفت امر یعنی قانون بنانا بھی صفت تکوین میں داخلت ہے اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اپنی مشہور اور بے نظیر کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں:

وسرّ ذلک ان التحلیل والتحریم عبارۃ عن تکوین نافذ فی الملکوت ان الشیٔ الفلانیّ یواخذ بہ او لا یؤاخذ بہ فیکون ھذا التکوین سبباً للمواخذۃ و ترکھا و ھذا من صفات اللّٰہ تعالٰی :

یعنی اور اس کا راز یہ ہے  کہ تحلیل و تحریم یعنی قانون سازی اس تکوین کا نام ہے جو عالم ملکوت میں نافذ ہوتی ہے کہ فلاں شۓ پر مواخذہ ہو گا یا نہ ہو گا پس یہی تکوین اللہ تعالی کی صفات سے ہے۔ (حجۃ اللہ البالغۃ  ص 49)

اور شیخ سرفراز خان صفدر صاحبؒ اسی عبارت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ احکام شرعی امور تکوینی کی طرف راجع ہیں اور تکوین اللہ تعالیٰ کی صفات میں  داخل ہے اور اس صفت میں دیگر صفات کی طرح اس کا کوئی شریک نہیں۔

(تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

و صلی اللّٰہ علی النبی الکریم

پہلا مسئلہ : جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہوتی ہے اور عوام بالواسطہ یا بلا واسطہ طریقے سے حکومت چلاتے ہیں۔

(1)       صاحب معجم الوسیط جمہوریت کی تعیرف اس طرح کرتا ہے کہ جمہور ہر چیز کے بڑے حصے کو

کہا جاتا ہے اور جمہوری نظام کا مطلب ہے کہ فیصلے کا اختیار ایسے خاص لوگوں کے ہاتھ میں ہو، جن کو ایک خاص طریقہ کار کے مطابق عوام نے منتخب کیا ہو، اور اس نظام میں عوام ایک محدود مدت کیلئے اپنے حاکم کا انتخاب کرتے ہوں۔ اور جمہوریہ ایسے مملکت کو کہتے ہیں جس کا حاکم عوام یا خواص کا منتخب کردہ ہو ، اور اس کا انتخاب محدود مدت کے لئے ہو۔

الجمھور من کل سیٔ معظمہ والحکم الجمھوری ان یکون الحکم بید اشخاص تنتخبھوا الامۃ علی نظام خاص ، و یکون للامۃ رئیس ینتخب لمدۃ محدودۃ الجمہوریۃ دولۃ یرأسھا حاکم منتخب من الشعب او من ممثلۃ و تکون ریاستہ لمدۃ محدودۃ ۔ (معجم الوسیط ، ابراھیم مصطفیٰ، احمد الزیات، حامد عبد القادر، محمد النجار، باب الجیم)

صاحب معجم اللغۃ العربیۃ  جمہوریت کی تعریف یوں کرتے ہوئے لکھتے ہیں  دولۃ یرأسھا حاکم منتخب من الشعب اومن ممثلیۃ، و تکون ریاستہ لمدۃ محدودۃ ینص علیہا دستور البلاد    ترجمہ : جمہوریہ ایسی مملکت کو کہتے ہیں جس کا حاکم عوام یا خواص کا منتخب کردہ ہو،  اور اس کا انتخاب ہر ملک کے دستور کے مطابق محدود مدت کے لئے ہو۔

جمہوریت اور اسلام میں تقابل ہے یعنی جمہوریت اسلامی نہیں ہو سکتی کیونکہ جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت کو کہتے ہیں جس میں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہوتی ہے اور عوام بالواسطہ یا بلا واسطہ حکومت چلاتے ہیں یعنی جمہوریت عوام کے اوپر عوام کی حاکمیت کو کہتے ہیں اور یہ تعریف جمہوریت کے لئے ماہیت اور حقیقت سمجھا جائے گا۔ ماہیت کا مطلب ہے ’’ما بہ الشیٔ ھو ھو ‘‘جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جس کے بغیر وہ چیز وہ نہیں ہو سکتی دیگر تفصیلات یہاں مطلوب نہیں ہیں مطلب یہ ہیں کہ عوام کو قانون ساز ماننے کے بغیر جمہوریت ،جمہوریت نہیں سمجھی جائے گی۔ پس جب جمہوریت کے لئے اپنی ماہیت کے بغیر موجود ہونا ممکن نہیں ہے۔ تو پھر جب مطلق جمہوریت اسلامی جمہوریت یا شرقی جمہوریت اور مغربی جمہوریت کو تقسیم کیا جائے تو جمہوریت کی ماہیت جمہوریت سے نفی نہیں ہو گی۔ کیونکہ کسی چیز کی قسم وہ شیٔ مع القید ہوتی ہے یعنی اس چیز کے ساتھ کوئی قید لگا کر وہ اس چیز کی قسم بنتی ہے ۔ یہاں پر بھی جمہوریت کے ساتھ ایک قید لگائی گئی ہے جو کہ اسلامی ہے، تو یہ اسلامی جمہوریت بن گئی، پس جمہوریت مع قید اسلامی صرف جمہوریت اور مطلق جمہوریت کی قسم ہے۔ تو اس میں جمہوریت کی ماہیت ( یعنی عوام کی حاکمیت اور عوام کی قانون سازی کا حق) ہوگی یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر جمہوریت نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر تو اس میں یہ ماہیت لازماً ہو گی، کیونکہ ماہیت کے بغیر کسی چیز کے افراد کا وجود ممکن نہیں ہے، جس طرح انسان جو حیوان کے انواع میں سے ایک نوع ہے اور حیوان ماہیت کے بغیر اس کا وجود نا ممکن ہے، یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان کا ایک بھی فرد ایسا موجود ہو جس میں حیوانیت نہ ہو، اسی طرح اسلامی جمہوریت جو جمہوریت کا نوع ہے اس کا وجود بغیر ماہیت جمہوری ناممکن ہے اور جب وہ ماہیت (عوام کی حاکمیت) ادھر موجود ہے تو جمہوریت کیسے اسلامی ہو گی؟ حالانکہ اس نے قانون سازی کا حق انسان کو دے کر ان تمام احکامات میں تبدیلی اور اسکے متبادل دوسرے احکامات بنانے کا جواز دیا جو کہ کفر ہے اور اسلام تو قانون سازی کا حق اللہ کو دیتا ہے یہ دونوں مفہومات ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں اللہ کو مطلق قانون سازی کا حق دینا اور مخلوق کو مطلق قانون سازی کا حق دینا، ان دونوں کے درمیان نسبت تضاد کی نسبت ہے۔ پھر جب ان دونوں میں نسبت تضاد ثابت ہوئی ۔

تو پھر یہ بات بھی مسلم ہے کہ کسی چیز کی ضد اس چیز کی قسم نہیں بن سکتی ہے کیونکہ کوئی چیز اگر اپنے ضد کی قسم بن جائے تو وہ قسم اپنی ذات اور ضد کو شامل ہو جائے گی اور یہ بات بدیہی البطلان ہے۔ لیکن اگر ہم اس تعریف کی حد کی بجائے رسم بنائے تو پھر اسم بھی ایک مابہ الامتیاز ہے یعنی جمہوریت کی تعریف ہے یہ اس کے علاوہ تمام نظاموں یا بعض سے اس کی امتیاز لاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ اس کے لوازم می سے شمار ہو گا۔ پھر جو بھی راستہ اختیار کیا جائے ( یعنی تعریف کو حد بنایا جائے یارسم بنایا جائے ) لیکن عوام کو حق قانون سازی دینا کفر ہے اور بصورت رسم چونکہ یہ جمہوریت کے لوازمات اور خواص میں سے ہیں، اس لئے انفکاک متصور نہیں ہے اور کفر لازم آتا ہے پس اسلام کی اساس لاالہ الا اللّٰہ اور ان الحکم الا للہ پر ہے ، جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود اور قانون ساز نہیں ہے، اور جمہوریت کی بنیاد ان الحکم الا للشعب پر ہے یعنی قانون سازی کا حق صرف عوام کو حاصل ہے۔

(تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

جمہوریت علماء دیوبند کی نظر میں[سمول]

(1)      حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ نے فرمایا’’غرض ‘‘ اسلام میں جمہوری سلطنت کوئی چیز نہیں یہ مخترعہ متعارفہ جمہوریت محض گھڑا ہوا ڈھکوسلہ ہے بالخصوص ایسی جمہوری سلطنت جو مسلم و کافر ارکان سے مرکب ہو تو غیر مسلم سلطنت ہو ہو گی ۔ ملفوظات تھانوی ص 252 / احسن الفتاویٰ ، کتاب الجہاد، باب سیاست اسلامیہ۔

(2)       حضرت مولانا محمد ادیس کاندھلوی ؒ فرماتے ہیں (وہ لوگ) کہتی ہو کہ حکومت عوام کی اور مزدوروں کی ہے اور ملک کا قانون وہ ہے کہ جو عوام اور مزدور مل کر بنا لیں سو ایسی حکومت بلا شبہ حکومت کافرہ ہے۔

عقائد الاسلام بحث خلافت راشدہ ک تعریف  ص191

(3)       حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ اسلام جمہوریت کے تصور کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں ‘‘ جمہوریت اور جمہوری عمل کاا سلام سے کیا تعلق ؟ اور خلافت اسلامی سے کیا تعلق ؟ موجودہ جمہوریت تو سترھویں صدی کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ یونان کی جمہوریت بھی موجودہ جمہوریت سے الگ تھی لہذا اسلامی جمہوریت ایک بے معنی اصطلاح ہے۔ ہمیں تو اسلام میں کہیں بھی مغربی جمہوریت نظر نہیں آئی اور اسلامی جمہوریت تو کوئی چیز ہے ہی نہیں ، معلوم نہیں اقبال مرحول کو اسلامی کی روح میں یہ جمہوریت کہاں سے نظر آگئی؟ جمہوریت ایک تہذیب و تاریخ کا ثمرہ ہے، اسے اسلامی تاریخ میں ڈھونڈنا معذرت خواہی ہے ’’ ماہنامہ سنابل کراچی ج 8 ص 28،27 شمارہ نمبر 11 مئی 2013 مدیر مولانا محمد احمد صاحب ۔

(4)       سواےاللہ کو ایک ماننے والو ! شرک کا راستہ اختیار کرکے بھی بھلا کوئی اسلام کو سربلند کر سکتا ہے؟ حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے فرمایا۔ یہ تمام برگ و بار مغربی جمہوریت کے شجرہ خبیثہ کی پیداوار ہے۔ اسلام میں اس کافرانہ نظام کی کوئی گنجائش نہیں ۔ احسن الفتاویٰ جلد 6 / ص26

(5)       حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ جمہوریت کی تصور کو رد کرکے فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ جمہوریت اور الیکشن جو یورپ سے ہمیں ملا ہے یہ بہت بڑی لعنت ہے ۔اسلامی مملکت کی قدو قیمت ص 21

(6)       حضرت شیخ الحدیث و مفتی محمد سلمان منصور پوری حفظہ اللہ جمہوریت پر رد کرتے ہوئے ایک اہم فتوی میں لکھتے ہیں: آج کل کی نام نھاد جمہوریت سے اسلام کا کوئی واسطہ نہیں ، جس میں عقل و بصیرت کے بجائے صرف تعداد دیکھی جاتی ہے، اور قطعاً بے عقل اور نا اہل لوگوں کو بھی ذی بصیرت خواص کے پہلو میں کھڑا کر دیا جاتا ہے، ایسی اندنگری کا اسلام میں کوئی تصور نہیں فقط واللہ اعلم ۔ کتاب النوازل جلد 2 / ص538   ۔    ۳/۳/ ۱۴۲۱ھ

(7)       حضرت مولانا شیخ عبد الحق بانی دارالعلوم جامعہ حقانیہ جمہوریت کو اسلام سے جوڑنے والے پر رد کرتے ہوئے اپنے فتویٰ میں لکھتے ہیں اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جو اپنی خصوصیات کی وجہ سے مستقل تشخص کا مالک ہے، اس کا تعلق جمہوریت یا سوشلزم سے جورنا اسلامی نظام سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔ فتاویٰ حقانیہ ، جلد 2 / ص352

(8)       حضرت مولانا مفتی مہران علی صاحب جامع الفتاویٰ میں جمہوری تصور کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسلام میں مغربی جمہوریت کا کوئی قصور نہیں، اس میں متعدد گروہوں کا وجود (حزب اقتدار اور حزب اختلاف) ضروری ہے جبکہ قرآن اس تصور کی نفی کرتا کرتا ہے: واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا، جامع الفتاویٰ جلد 8 / ص 392

(9)       حضرت مولانا شیخ سمیع الحق شہید رحمہ اللہ درس ترمذی کے دوران میں  جمہوریت کو اسلام کے ضد تصور کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جمہوری طرز حکومت ( جوکہ فی الحقیقت اسلام اور مذہب کے خلاف وضع ہوئے ہے) ماہنامہ الحق اگست 2004ء صفحہ 10 جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ پاکستان

(10) خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی نور اللہ مرقدہ جمہوری نظام کو اسلام کے برخلاف ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں سیاسی اصطلاح میں جمہوریت اس نظام کا نام ہے، جس میں قانون سازی اور فیصلے کا دار و مدار کثرت رائے پر ہوتا ہے اور قوت دلیل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ، اس کے بر عکس اسلام میں قانون سازی اور فیصلے کا انحصار قوت دلیل پر ہے کثرت رائے پر نہیں۔ خطبات احتشام جلد 3  ص 231 مرتب مولانا محمد فیاض قاسمی صاحب

(11) حضرت مولانا مفتی خالد سیف اللہ رحمانی صاحب قاموس الفقہ میں جمہوریت کو اسلام کے ساتھ مخالف ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں اسلام میں جمہور کی حیثیت مقننہ کی سے نہیں، بلکہ قانون سازی اور حاکمیت صرف اللہ کا حق ہے ان الحکم الا للّٰہ یہ ایک بنیادی اور جوہری فرق ہے، جو جمہوریت کے عام مفہوم اور اسلامی نقطہ نظر کے درمیان خط امتیاز کھینچتا ہے اسلام میں شوریٰ یا پارلیمنت کا کام صرف تنظیمی امور پر غور کرنا اور مصلحی احکام کی حالت پر تطبیق ہے ، اس کے علاوہ جہاں تک عام انسانی حقوق کے تحفظ اور اظہار رائے و سیاسی آزادی کا مسئلہ ہے تو اسلام مناسب حدود میں ان کی جو رعایت کی ہے، موجودہ دور کی جمہوری اور سیکولر حکومتیں اس تمدنی ارتقاء اور سفر مسلسل کے باوجود بھی اس میں بہت پیچھے ہے۔  قاموس الفقہ جلد 2 / ص218

(12) حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب جمہوریت کو مغربی پروان ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کا مروجہ نظام جس میں علامہ اقبال ؒ کے نزدیک بندوں کو گناہ کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے مغرب ہی کا عطیہ ہے ۔ سیاست صفحہ 1

(13) صاحب انوار الاسلام جمہوریت پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جمہوریت کا نظام سلطنت انسان کو ایسی آزاد روش پر ڈالنا اور اس قدر خلیع الرسن بنانا چاہتا ہے کہ انسان خدا شناسی اور خدا پرستی کے خیالات کو تا دیر قائم نہیں رکھ سکتا ، خالص جمہوری نظام حکومت سب سے زیادہ قوی تحریک دہریت اور لا مذہبیت کی ہے۔  انوار الاسلام ص 4698

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اسلام اور جمہوریت کو الگ الگ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں چنانچہ اسلامی حکومت کی بنیاد ایک ایسے قانون پر رکھی گئی جو بعض اعتبارات سے شخصیت سے ملتا ہے اور بعض وجود سے جمہوریت کا ہمرنگ ہے ( یعنی خذ ما صفا و دع ما کدر) ترجمہ:  جو بات اچھی ہو اس کو اختیار کر لو اور جو بری ہو چھوڑ دو ۔ کے قانون پر عمل کرتے ہوئےشخصیت و جمہوریت دونوں کی وہ دفعات جو مفاسد پر مشتمل ہیں اسلام نے ان سب کو نظر انداز کر دیا۔ اور جن دفعات کے ماتحت نطام عالم درست ہو سکے ان کو اختیار کر لیا۔ جس کی اجمالی صورت یہ ہے (1)اسلامی خلافت میں وراثت نہیں چلتی ۔ یہ ضروری نہیں کہ باپ کے بیٹا یا اسی کی نسل کا کوئی اور آرمی خلافت و امارت کا جاگیردار ہو۔بلکہ بیعت عامہ یا مشورہ سے انتخاب ہو جائے اور یا سابق خلیفہ کسی شخص کو اپنی رائے سے مقرر کر دے (وہ ہی اس عہدہ پر فائز ہو گا ۔ ازالۃ الخلفاء) جواہر الفقہ ج 6 / ص 459

(14) حضرت علامہ شبلی نعمانی صاحب جمہوریت اور اسلام میں فرق ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر اسلام کے قانون میں مسلم و غیر مسلم کا ایک فرق بیچ میں حائل ہے تو جمہوری نظام میں ملکی اور غیر ملکی قوم اور غیر قوم، امیر اور غریب ، سرمایہ دار اور مزدور، تجارت ، پیشہ اور زمیندار طبقہ اور غیر طبقہ، پارٹی اور غیر پارٹی کے بیسیوں رجحانات اور دیواریں حائل ہیں۔ سیرت النبی ؐ جلد4 / ص 736

(15) صاحب تاریخ اسلام جمہوریت اور جمہوری نظام کو طاغوتی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: مغرب سے پروان چڑھنے والی جمہوریت (Democracy) خالصتاً ایک کفریہ ، شرکیہ اور طاغوتی نظام حکومت ہے ، جیسے یہودو نصاریٰ نے دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے اور اسلام کی اشاعت اور ترویج و تنفیذ کو روکنے کے لیے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ عصر حاضر میں دنیا کے نعض مسلمان ملکوں میں بعض مسلمان جماعتوں اور حلقوں نے اسے اسلامی سیاست کے ساتھ پیوند کرنے کی کوشش کی مگر ان کا یہ تجربہ کامیاب نہیں رہا۔ تاریخ اسلام جلد 1 /  ص 31

(16) حضرت مولانا مفتی یوسف لدھیانوی شہید ؒ   جمہوریت کے بارے میں لکھتے ہیں جمہوریت کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریے کی ضد ہے۔ آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد 8 / ص 176

(17) حضرت مولانا مفتی حمید اللہ جان صاحب جمہوریت کا تصور کو رد کرے کرتے ہوئے فرماتے ہیں‘‘ مشاہدہ اور تجربے سے ثابت ہت کہ موجودہ مغربی جمہوری نظام ہی بے دینی، بے حیائی اور تمام فسادات کی جڑ ہے اور خصوصاً اس میں اسمبلیوں کو حق تشریع (آئین سازی ، قانون سازی کا حق) دینا سراسر کتاب و سنت اور اجماع امت کے خلاف ہے اور ووٹ کا استعمال مغربی جمہوری نظام کو عملاً تسلیم کرنا اور اس کی تمام  خرابیوں میں حصہ دار بننا ہے اس لیے موجودہ مغربی جمہوری نظام کے تحت ووٹ کا استعمال شرعاً ناجائز ہے۔

(ماہنامہ سنابل ، کراچی، مئی 2013، جلد 8 شمارہ نمبر  11، ص 32 )

(18) ماہنامہ البیانات والے اسلامی نظام اور جمہوری نظام میں تباین ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اسلام کے سیاسی نظام یعنی خلافت کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ انسان تو کیا، کوئی بھی ہستی اس کے مستحق اور اہل نہیں کہ دوسروں پر فرمان روائی کرے۔ خلافت میں حاکم اعلیٰ ، اللہ ہے، جس کے فرمان روائی کائنات کے ذرے ذرے پر ہے لیکن جمہوری نظام میں (بظاہر) حاکم اعلیٰ عوام ہوتی ہے جو کہ اسلامی نقطہ نظر سے غلط ہے۔ ماہنامہ البیانات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۲ ھ مطابق مارچ 2011 جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ محمدیوسف بنوری ٹاؤن کراچی پاکستان

(19) عالم ربانی محدث کبیر حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب اسلامی تعلیمات کو جمہوریت پر چسپاں کرنے کی عمل کو تحریف قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ( ضروری تنبیہ) آخر میں یہ تنبیہہ کرنا ضروری ہے کہ موجودہ دور میں جس کو جمہوریت کہا جاتا ہے، اسلامی تعلیم کو اس پر منبطق کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ ایک طرح کی تحریف ہے، دور حاضر کی جمہوریت اور اسلامی تعلیمات میں بنیادی اختلاف ہے۔ موجودہ جمہوریت کی تحسین اور تعریف یہ ہے کہ ہر ایک بالغ کی آزادانہ رائے سے اس کی تشکیل ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر اس کا دستور مرتب ہوتا ہے اور یہی روح اس کے ہر ایک قانون میں کار فرما ہوتی ہے بس ایسے ملک میں جہاں مختلف فرقے اور مختلف مذہبوں کو ماننے والے آباد ہوں لازمی ہو گا، کہ حکومت کا کوئی مذہب نہ ہو یعنی حکومت (لادینی) ہو اور اگر ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہوں تب بھی دور حاضر کی جمہوریت میں دستور اساسی جمہور کا وضع کردہ اور منظور ہو گا۔ (ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2017 ، ص12-11 (

(20)  حضرت مولانا محمد اسحٰق سندھلوی جمہوریت پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: دنیا کے سیاسی نظریوں میں جس قدر پُر فریب اور پُر تلبیس نظریہ جمہوریت ہے ۔ اس قدر کوئی بھی نہیں۔ (اسلام کا سیاسی نظام ص 421 ۔ فتنہ ارتداد ص 154)

(21) حضرت العلامۃ،ظفر احمد العثمانی جمہوری حکومت کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: والسلطنۃ المرکّبۃ من الاعضائ المسلمین والکافرین لا یکون سلطنۃ اسلامیۃ قط، وانما ھی سلطنۃ الکفر لا سیما اذا کانت اکثرۃ لھم لا لنا، فان المرکب من الخسیس والشریف خسیس ومن الطیب والخبیث خبیث۔ ترجمہ: اور ایسی حکومت جو مسلمان اراکین پارلیمان اور کافروں سے بنی ہو کبھی بھی اسلامی حکومت نہیں ہو سکتی، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ تو کفر ہی کی سلطنت ہو گی۔ خصوصاً جبکہ کثرت بھی کافروں کی ہی ہو، کیونکہ ذلیل و کمین اور شریف چیز کا مرکب تو کمین ہی کہلائے گا اور پاک و ناپاک کا مرکب تو ناپاک ہی ہوتا ہے۔ بحوالہ تباہی کے دہانے پر ص 46 ، اعلاء السنن مع تعلیق المفتی تقی العثمانی : باب نصب المجانیق جلد 12 ص 24

(22)  حضرت مولانا ابو لبابہ شاہ منصور صاحب جمہوریت او ر جمہوری نظام کو مقدمات دجّال سے قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ مذہب فری میسنری کا خفیہ مذہب ہو گا۔یہ ان نظریات پر مشتمل ہوگا جیسے دجال کی پیشکی تنظیم فری میسن نے ایجاد کیا اور اسے پھر آہستہ آہستہ دنیا نے قبول کر لیا۔ مثلاً مغربی جمہوریت : جو فری میسنری کے’’برادرز اور ماسٹرز‘‘ کو برسر اقتدار لانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ دجال صفحہ 153

(23)   حضرت مولانا فضل محمد یوسف زئی صاحب جمہوریت  کو اسلامی نام دینے اور اسلامی وغیر اسلامی کو تقسیم کرنے پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کہ جمہوریت میں اسلام کی بوتک بھی نہیں ہے۔ علماء کرام کو خوب یاد رکھ لینا چاہیے کہ جمہوریت میں اسلام تلاش کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ شعر:۔

کسے در صحن کا چی قُلیہ جوید          اضاع العمر فی طلب المحال


(24)  ترجمہ:۔  یعنی کھیر کے پیالے میں گوشت کی بوٹیاں تلاش کرنا فضول وقت ضائع کرنا ہے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں اسلامی جمہوریت یہ کہنا ایسا ہی ہے کہ کوئی کہے اسلامی شراب، اسلامی فساد (فتنہ ارتداد اور جہاد فی سبیل اللہ ص 139)

(25)  حضرت مولانا مفتی ثواب علی صاحب، جمہوریت یا جمہوری نظام کے متحمل اسلام کو امریکی اسلام ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کہ وہ اسلام جس سے اینڈ کارپوریشن چاہتا ہے ‘‘ شیریل برنارڈ’’ اس کا تعارف کچھ اس طرح سے کرتا ہے۔ ‘‘ امریکہ نئی صنعتی دنیا ، اور مجموعی طور پر بین الاقوامی معاشرے میں ایک ایسا  اسلام چاہتا ہے جو باقی دنیا کے نظام کے ساتھ ایک راستے پر گامزن جمہوری اور نیا اسلام ہو، اور دنیاوی قوانین ، احکام اور اخلاق کے ساتھ چل سکتے (عالم اسلام پر فکری یلغار صفحہ 53)

(26) حضرت مولانا مفتی محمود ؒ موجودہ جمہوریت و جمہوری نظام پر رد کرت ہوئے فرماتے ہیں کہ : آج کفر نے ہمارے ملک پر حملہ کیا ہے تو دفاع فر ض ہے وہ شخص جو 24 گھنٹے سجدہ ریز ہو، لیکن اس موجودہ باطل نظام کو محسوس نہیں کرتا، اس کے خاتمے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور ملک کے اندر کے حالات میں دفاعی داعیہ اسکے ذہن میں موجود نہیں اور اسکے ماتھ پر شکن تک نہیں آتی ، میں اس شخص کو نہ دیندار سمجھتا ہوں او نہ پرہیزگار سمجھتا ہوں، یہ پیغمبر ﷺ  کا طرز زندگی نہیں ہے (ماہنامہ ‘‘ الجمعیۃ ’’ ستمبر 2012 ء ص19) (تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کا فتویٰ[سمول]

سوال:  کیا ہمارے نبی ﷺنے جمہوریت کو قائم کیا تھا اور کیا خلفائے اربعہ بھی اسی جمہوریت پر چلے یا انہوں نے کچھ تغیر و تبدیل کیا ہے ؟

الجواب حامدا ً و مصلیاً :

         حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے جمہوریت کے تردید فرمائی ہے۔ وہاں قوانین و احکام کا دارومدار دلائل پر نہیں بلکہ اکثریت پر ہے، یعنی اکثرت رائے سے فیصلہ ہوتا ہے۔ پس اگر کثرت رائے قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسی پر فیصلہ ہو گا۔ قرآن کریم نے اکثریت کی اطاعت کو موجب ضلالت فرمایا ہے۔ (وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ) اہل علم اہل دیانت اہل فہم کم ہی ہوا کرتے ہیں۔ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم حضور ﷺ کے نقش قدم پر چلنے والے تھے، انہوں نے اس کے خلاف کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کی ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ جلد 4 / ص)

جمہوریت لفظ (اسلامی) سے اسلامی نہیں ہو سکتی بلکہ یہ جازب لفظ ہے جس سے مسلمانوں کو آلہ کار بنا کر جمہوریت کے حامی بننا مقصود ہوتا ہے حضرت مولانا مفتی محمد فرید ؒ فرماتے ہیں۔ ابتداء سے اسلامی سوشلز اسلامی جمہوریت اور پاکستان وغیرہ جاذب الفاظ سے علماء کرام کو آلہ کار بنایا جاتا ہے بعد میں علماء کو بے کار ثابت کیا جاتا ہے۔ (فتاویٰ فریدیہ جلد 1 / 575)

حضرت مولانا مفتی مختار الدین جمہوریت کو اسلام کے ضد ہونے کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ جمہوریت اور جمہوری نظام کا اسلام سے کوئی جوڑ نہیں تو اب یہ بھی سمجھ لیجیے کہ اگر بالفرض جمہوریت کی راہ سے کوئی اسلامی تحریک بر سر اقتدار آئی بھی تو وہ پھر بھی حقیقی معنوں میں اسلامی نظام سے محروم ہو گی اگر چہ یہ اسلامی تحریک والے اس کا نام اسلام رکھیں یا خلافت کانام دیں بہر حال وہ اسلام کے نام پر خود اسلام کے لئے رکاوٹ بن جائے گی۔

حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب ایسے لوگوں پر جن کے ذہنوں میں جمہوریت اسلام کے ساتھ کوئی تقابل اور تصادم نہیں رکھتا  تنقیبفرماتے ہیں کہ :    لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ’’جمہوریت‘‘ عین اسلام ہے۔ حالانکہ بات اتنی سادہ نہیں ہے ، در حقیقت’’ جمہوری نظام حکومت‘‘  کے پیچھے ایک مستقل فلسفہ ہے جو دین کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، اور جس کے لیے سیکولرزم پر ایمان لانا تقریباً لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے ۔ (اسلام اور سیاست ص 24)

السوال :۔  کیا جو شرعی حکم یا دفعہ کو قانونی حیثیت دو تہائی اکثریت کی وجہ سے مل جائے تو یہ دفعہ شرعی ہو گی یا نہیں؟

الجواب: ۔  شرعی حکم یا دفعہ کو آئینی حیثیت دینا جب من حیث الشریعت (یعنی شریعت کی وجہ سے ) نہ ہو بلکہ اکثریت کے منظور کرنے کو محتاج ہو ایسی دفعات اسلامی نہیں ہونگے۔ بلکہ محض ہوا پرستی ہو گی۔ کیونکہ شریعت کا ماننا صرف اس لئے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی امر ہے : قال العلامۃ الشیخ محمد علی فی حاشیۃ شرح العقائد تحت ھذا القول : ان الایمان فی الشرع : ھو التصدیق بما جاء بہ النبیﷺ قولہ ما جاء بہ الخ : یعنی من حیث انہ ما جاء بہ الرسول ﷺ من عند اللّٰہ ، حتی ان من صدق بوحدانیۃ اللہ تعالی بالدلیل ، و لم یصدق بما جاء بہ من عند اللہ لم یکن بھذا التصدیق مؤمنا ، و من صدق بما جاء بہ محمد ﷺ من عند اللہ من غیر تصدیق بانہ جاء محمد ﷺ من عند اللہ لم یکن مؤمنا بحمد ﷺ (من عصام)  (شرح العقائد المحشی بعقد الفوائد ص 302)

اور اس طرح حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب بھی ایسے دفعات غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: جمہوریت کا سب سے پہلا رکن اعظم یہ ہے کہ اس میں عوام کا حاکم اعلی تصور کیا جاتا ہے ، اور عوام کا ہر فیصلہ جو کثرت رائے کی بنیاد پر ہوا ہو وہ واجب التعمیل اور ناقابل تنسیخ سمجھا جاتا ہے۔ کثرت رائے کے فیصلہ پر کوئی قدغن اور کوئی پابندی نہیں کی جاسکتی ۔ اگر دستور حکومت عوامی نمائندوں کے اختیار قانون سازی پر کوئی پابندی بھی عائد کردے۔ ( مثلاً یہ کہ وہ کوئی قانون قرآن و سنت کے یا  بنیادی حقوق کے خلاف نہیں بنائے گی) تو یہ پابندی اس لئے واجب التعمیل نہیں ہوتی کہ یہ عوام سے بالاتر کسی اتھارٹی نے عائد کی ہے یا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جسے ہر حال میں ماننا ضروری ہے، بلکہ صرف اس لئے واجب التعمیل سمجھی جاتی ہے کہ یہ پابندی خود کثرت رائے کینے عائد کی ہے۔         لہذا اگر کثرت رائے کسی وقت چاہے تو اسے منسوخ بھی کر سکتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ جمہوریت نے کثرت رائے کو (معاذ اللہ) خدائی کا مقام دیا ہوا ہے کہ اس کا کوئی فیصلہ رد نہیں کیا جا سکتا۔ (اسلم اور سیاست ص 24)

اور یہی قانون حضرت مولاناسید مفتی مختار الدین شاہ صاحب نے بھی نقل کر کے کثرت رائے سے پاس شدہ اسلامی دفعات کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ اگر دستور حکومت عوامی نمائندوں کے اختیار قانون سازی پر کوئی پابندی بھی عائد کر دیں (مثلاً یہ کہ وہ کوئی قانون قرآن و سنت کے یا بنیادی حقوق کے خلاف نہیں بنائے گی ) تو یہ پابندی اس لئے واجب التعمیل نہیں ہوتی کہ یہ عوام سے بالاتر کسی اتھارٹی نے عائد کی ہے یا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جسے ہر حال میں ماننا ضروری ہے، بلکہ صرف اس لیے واجب التعمیل سمجھی جاتی ہے کہ یہ پابندی خود کثرت رائے نے عائد کی ہے، لہذا اگر اکثرت رائے کسی وقت چاہے تو اسے منسوخ بھی کر سکتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ جمہوریت نے کثرت رائے کو (معاذ اللہ) خدائی کا مقام دیا ہوا ہے کہ اس کا کوئی فیصلہ رد نہیں کیا جا سکتا۔ (اسرار العروج ص 21)

مسئلہ :جمہوریت میں معیار ترجیح کثرت رائے ہوتا ہے اور شریعت میں معیار ترجیح قت رائے ودلیل ہوتا ہے۔چنانچہ برھان الدین علی بن ابی بکر المرغینانی الحنفی  (المتوفی 593ھ(

تحرير فرماتا ہیں :الترجیح بقوۃ الدلیل لا بکثرتہ:یعنی ترجیح قوت دلیل سے ہوتی ہے نہ کہ کثرت دلیل سے (الھدایۃ جلد4ص309ھ)اور علامہ اکمل الدین محمد بن محمد الرومی البابری الحنفی  (المتوفی :786ھ) تحریرفرماتے ہیں:الترجیح بقوۃ الدلیل لا بکثرتہ:یعنی معیار ترجیح قوت دلیل ہوتی ہے نہ کہ کثرت دلیل(العنایۃج9ص378)اور اس طرح علامہ کمال الدین محمد بن عبد الواحد ابن الھمام الحنفی (المتوفی861ھ)تحریر فرماتے ہیں:الترجیح بقوۃ الدلیل لا بکثرتہ :یعنی ترجیح قوت دلیل سے ہوتی ہے نہ کثرت دلیل (فتح القدیر لابن الھمام ج9ص378)اور علامہ ابو محمد محمود بن موسی الغیتابی بد ر الدین العینی الحنفی (المتوفی 855ھ)تحریر فرماتے ہیں :الترجیح بقوۃ الدلیل لا بکثرتہ :یعنی معیار ترجیح قوت دلیل ہوتی ہے نہ کہ کثرت دلیل۔(البنایہ ج11ص293)

علامہ عثمان بن علی البارعی ،فخر الدین الزیلعی الحنفی (المتوفی 743ھ)بھی تحریر فرماتے ہیں۔ان الترجیح یکون بقوۃ فی الدلیل لا بکثرتہ :یعنی بیشک معیار ترجیح قوٹ دلیل ہو تی ہے نہ کثرت دلیل۔(تبیین الحقائق ج4ص316)اور خاتمۃ المحقیقین محمد امین بن عمر ابن عابدین الشامی الحنفی المتوفی (1252)بھی تحریر فرماتے ہیں:فان الترجیح عندنا بقوۃ الدلیل لا بکثرتہ یعنی بیشک احنافؒ کے ہان معیار ترجیح قوت دلیل ہوتا ہے نہ کہ کثرت دلیل(الدرالمختار و حاشیۃ ابن عابدین ج5ص576) اور یہی عبادت کم وبیش فقہ حنفی کی اکثر کتب میں موجود ہے جیسے مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر ج2ص280:اور البحر الرائق ج2ص178وغیرہ وفقہ حنفی کے علاوہ جیسے المستصفی ص171اور میزان الاصول فی نتائج العقول ص506:وغیرہ میں بھی یہی مضمون موجود ہے۔

کسی کافر کو اسلامی سلطنت کا سربراہ اور امیر بنانا اور وزارتی اور فوجی اور مسول کسی کا کلیدی عہدہ دینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی کافروں دسے سلطنت سپاہی اور اہم امور میں مشورہ لینا جائز ہے۔(اسلانئ عقائد۔ص210)

فائدہ :متحدہ مجلس عمل کی بیناد پر شیعہ یا قادیانی یا سنکھ یا ہندو کو ممبری یا کسی قسم کی عہدہ دینا جائز نہیں۔

(1)     قال  العلامۃ  شمس الائمۃ السرخسی الحنفؒ:ولا و لایۃ  للکافر علی المسلم۔ (المبسوط للسرخسی جلد10ص216)

(2)      قال ال الامام حجۃ الالسلام ابوبکر الجصاص الحنفی :انہ لاتجوز الاستعانۃ باھل الذمۃ فی امور المسلمین من العمالات والکتبۃ وقدوری عن عمرانہ بلغہ ان ابا موسی استکتب رجلا من اھل الذمۃ،فکتب الیہ یعنفہ ،وتلا(یاایھا الذین آمنوا لاتتخذو وابطانۃ من دونکم )ای لا تردوھم الی العزّ بعد ان اذلّھم اللہ تعالی۔(احکام القرآن للجصّاص ج2ص47)

(3)      قال علائ الدین الکاسانی الحنفی (لایتوارث اھل ملّتین شیئا)ولان الکافر لیس من اھل الولایۃ علی المسلم لان الشرع قطع ولایۃ الکافر علی المسلمین قال اللہ تعالی (ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا)وقالﷺ(الاسلام یعلو ولایعلی)ولان اثبات الولایۃ للکافر علی المسلم تشعر باذلال المسلم من جھۃ الکافر۔(بدائع الصنائع جلد2ص239)

(4)      قال ابوالمعانی برھان الدین البخاری الحنفی :واماالاسلام انما شرط اذا کان المشھود علیہ مسلما،لانہ لا ولایۃ للکافر علی المسلم ،(المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی ج8ص96)

(5)      قال العلامۃ العینی الحنفی (وکذا الاولایۃ لہ علی المسلمین )ش:لانہ لا مانہ ولایۃ وھی نفاذ قول علی الغیر،ولاولایۃ للکافر علی اھل السلام ،قال اللہ تعالی(ولن یجعل اللہ للکافرین علی المسلمین سبیلا)النسائ:141فلا یصح امانہ(البنایۃ شرح الھدایۃ ج7ص125)

(تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

ووٹ کی شرعی حیثیت[سمول]

سوال:۔کیا ووٹ اور شھادت شریعت کے نظر میں ایک ہے؟

جواب :۔ الحمد للہ والصلوٰۃ علی نبی ﷺ و بعد تمام فقھائ اور محدیثین کے ہاں اور باجماع امت ووٹ اور شھادت ایک نہیں ہے۔بلکہ ان دونوں میں بہت فرق وجوہ امتیاز اور فرق ہے کیونکہ (ووٹ)کا معنی ہے رائے یا کسی معمالے کے فیصلے کے لیے رائے  دینا ۔(فیروز اللغات ص758) (البنایۃ صج9ص100)(مجمع الانھرج1ص598)اور  شھادت کا معنی الجزجانی یوں کرتے ہیں ھی فی الشریعۃ اخبار عن عیان بلفط الشھادۃ فی مجلس القاضی بحق للغیر علی آخر :یعنی شریعت کی نظر میں شھادت کسی کے لئے کسی مجلس قاضی میں ایسا خبر دینا جو دیکھنے کی بنیاد پر لفظ لفظ شھادت کے ساتھ یو کتاب التعریفات ص 120اور صاحب کشاف اصطلاحات الفنون فرماتے ہیں وشرعا اخبار بحق للغیر علی آخر عن یقن وذلک المخبر یسمی شاھدا یعنی شریعت کے نقطہ نگاہ میں شھادت یقین کے ساتھکسی کے لئے کسی پر حق ہونے کا خبردینا اور ایسا خبر دنے والے کو شاھد کہا جاتا ہے۔کشاف اصطلاحات الفنون ج2 ص470اور حضرت العلامہ الفقیہ ابو اللیث السمرقندی ؒ شھادت کی تعریف یوں فرماتے ھو اخبار بصحۃ الشیئ عن شھادۃ وعیان لاتخمین وحسبان یعنی شھادت کسی خاص شئ کی صحت کا خبر دینا جو مشاھدہ اور دیکھنے کی وجہ سے ہو نہ تخمین اور گمانکے بنیاد پر (فتاوی النوازل ص392)اور یہ یعریف بھی ہے کسی کا حق ثابر کرنے کے لئے قاضی کی مجلس میں لفظ شہادت کے ساتھ سچی بات کی خبر دینا ۔فائدہ : مذکورہ تعریفات سے واضح ہو کہ ووٹ اور شھادت میں فرق موجود ہے کیونکہ شھادت میں مشاھدہ اور یقین ضوری ہے اور ووٹ میں کسی امیدوار کت بارے میں صحیح اور یقینی معلومات ہونا ضروری نہیں اور ووٹ صرف کسی کے لئے حسن ظن کے بنیاد پر ووٹ ہوتا ہے اور شھادت تخمین اور حسن ظن کے بنیاد پر شھادت نہیں ہوتا قولنا عن یقین یخرج الاخبار الذی ھو عن حسبان وتخمین ۔کشاف اصطلاحات الفنون ج2ص470اور شھادت کے لئے قاضی کا وجود ضروری اور ووٹ دینے کے لئے قاضی شرط نہیں اور شھادت میں لفظ شھادت ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے اور ووٹ میں ضروری نہیں ۔ ولا بد من قید آخر :وھوقولنا :فی مجلس الحکم أی مجلس القضاء،کما فی فتح القدیر لیخرج مالیس فی مجلس الحکم ،فانہ لایسمّی شھادۃ ،کذافی جامع الرموز و البرجفدی وغیرھما۔کشاف اصطلاحات الفنون ج2ص470

(تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

ووٹ فقھا ء کے نزدیک شہادت نہیں ہے۔[سمول]

(1)       ووٹر کا مسلمان ہونا ضروری نہیں بلکہ کافر کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے اور علامی الکاسنیؒ فرماتے ہیں کہ شاھد کا مسلمان ہونا شھادت کے لئے شرط ہے جبکہ مشھود علیہ مسلمان ہو کافر کی شھادت مسلمان پر قبول نہ ہوگی کیونکہ شھادت مٰن ایک قسم کا ولایت ہوتی ہے اور وہ ہے کسی پر اپنا قول نافذ کرنا اور کافر اسکا احل نہیں ہے۔ومنھا اسلام الشاھد اذا کان المشھود علیہ مسلماً ،حتی لاتقبل شھادۃ الکافر علی المسلم لان الشھادۃ فیھا معنی الولایۃ ،وھو تنقید القول علی الغیر ،ولاولایۃ للکافر۔(بدائع الصنائعفی ترتیب الشرائع ج6ص280

(2)        والد کے ‘ووٹ’ولد کے لئے قبول ہوتا ہے اور علامہ السرخسی ؒ  مبسوط میں لکھتے ہیں کہ والد کی شھادت ولد کے لئے مقبول نہیں ہوتا ۔(۲) قال ان شھادۃالوالد لولدہ لاتکون مقبولۃ ۔المبسوط للسرخسی ج16ص643:

(3)        جوا کرنے والے کا ووٹ قبول ہے اور صاحب فتاوی:3 قاضی خان نے لکھا کہ :جو کرنے والے کی شھادت قبول نہیں قال ولا یجوز شھادۃ المقامر قامر بالشطرنج او بغیرہ فبایّ شئی قامر لم یقبل شھادتہ لان المقار کبیرۃ فتاوی قاضی خان ج3ص117

(4)        اور اکل الربوا(سود کھانے والا)کا ووٹ قبول ہوتا ہے اور اکل الربوا کی شھادت قبول نہیں۔ولاشھادۃ اکل الربوا فتاوی قاضی خان ج3ص۔117۔

(5)        اور جو شخص نماز جماعت کے ساتھ اہم نہ سمجھنے کی وجہ سے چوڑتا ہے اسکا ووٹ قبول ہوتا ہے اور شھادت قبول نہیں ہوتا ۔قال وان ترک الصلوٰۃ بالجماعۃ ولم یستعظم ذالک کما یفعل بہ العوام فتاوی قاضی خان ج3ص117۔

(6)        اور جو شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ بولنے پر مشھور ہوتا ہے اسکا ووٹ قبول ہوتا ہے اور شھادت قبول نہیں ہوتا قال(ولا یقبل شھادۃ من کان معروفاًبالکذب)فتاوی قاضی خان ج3ص117۔

(7)        اور جو شخص بازار میں عام لوگوں کے سامنے کھاتا ہواسکا ووٹ قبول ہوگا او شھادت قبول نہیں ہوتا۔قال(ولاشھادۃ من یأکل فی السوق بین ایدے الناس لان ذالک لایفعل من کان لہ مروّۃ)فتاوی قاضی خان ج3ص117۔

(8)        اور اھل التشیع یعنی شیعہ کے ووٹ قبول ہوتا ہے اور شھادت قبول نہیں ۔(ولایقبل شھادۃ من یظھر شتم اصحاب النبیﷺ )فتاوی قاضی خانج3ص117۔

(9)        فاسق شخص کا ووت مطلقاً قبول ہوتا ہے اور شھادت قبوک نہیں۔قال(الامام محمد الشیبانیؒولاتجوز شھادۃ الفاسق وتجوز شھادۃ العبد اذاکان عدلا)المبسوط للشیبانی ج2ص329۔(ولا تقبل شھادۃ الفاسق )تبین الحقائق ج4ص224۔

(10)  مرتد کا ووٹ قبول ہوتا ہے اورشھادت قبول نہیں ہوتا۔قال(شھادۃ المرتد لاتجوز علی احد بوجہ من الوجوہ)النتف فی الفتاوی ص489۔

(11)  ذمی کافر کا ووٹ مسلمان کو یا مسلمان کے خلاف دینا یا ذمی کو دینا بلکل ٹھیک ہے اور ذمی کی شھادت مسلمان کےلئے یا اکے خلاف یا ذمی کے لئے جائز نہیں۔قال(وشھادۃ الذمی لاتجوز علی المسلم ایضا لالمسلم ایضا ولالذمی (النتف فی الفتاوی ص489)

(12)  جو شخص کسی کے ساتھ دنیاوی دشمنی رکھتا ہوتو اس شخص کا اس کے خلاف ووٹ کا استعمال کرنا مقبول ہے اور شھادت قبول نہیں۔قال صاحب مجمع الانھر(ولاتقبل شھادۃ العدوّبسبب دنیا علی عدوّہ )مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر ج2ص197۔وایضا ولایجوز شھادۃ الرجل علی الرجل اذا کان بینھما عداوۃ)فتاوی قاضی خان 3ص117۔

(13)  اگر کسی نے اپنا ماں کو ووٹ دیا تو مقبول ہے اور شھادےمقبول نہیں۔قال(ولاتقبل شھادۃ الرجل لوالدیہ)فتاوی سراجیہ ص501۔ایضاً قال صاحب الھدایہ:ولا شھادہ الولدلابویہ )الھدای ج3ص122

(14)  دادای یا دادی کو ووٹ دینا مقبول اور صحیح ہے اور شھادت قبول نہیں۔قال ولا شھادۃ الولد لابویہ واجدادہ :الھدایہ ج3ص22 و ایضا لاتقبل شھادۃ الرجل لوالدیہ ،وجدّہ ،وجدتہ۔فتاوی سراجیہ ص501۔

(15)  پوتے اور نواسے کو ووٹ دینا قبول ہے اورشھادت قبول نہیں۔قال(لاتقبل شھادۃ الرجل لوالدیہ ،وجدّہ ،وولدہ ،وولد ولدہ فان اسفل )فتاوی سراجیہ ص501۔

(16)  بیوی کو ووٹ دینا اور خاوند کو ووٹ دینا درست اور قبولی ہے اور شھادت قبول نہیں۔قال صاحب الھدایہ :والاصل قولہ علیہ السلام :لاتقبل شھادۃ الولد لوالدہ ولاالوالد لولدہ ولاالمرأۃ لزوجھا ولاالزوج لامرأتہ الخ ج3ص122۔وایضاً:۔ولایجوز شھادۃ الزوج لامرأتہ ولا شہادۃ المرأۃ لزوجھا ۔ (خلاصۃ الفتاویٰ جلد ، 4 / ص 59)

(17)     شاگرد خاص یعنی وہ شاگرد جو استاذ کے عیال ہو اور اسکے ساتھ کھاتا ہو اور کسی کام کرنے پر اسکو اجرت دینا متعین نہ کیا ہو ایسے شاگرد کا ‘‘ ووٹ’’ استاد کو دینا جائز اور قبول ہے اور شھادت قبول نہیں : قال الامام الفقییہ طاہر البخاری : ولا یجوز شہادۃ الاجیر لاستادہ اراد بہ التلمیذ الخاص والتلمیذ الخاص الذی یأکل معہ و فی عیالہ و لیس لہ اجرۃ معلومۃ ۔ خلاصۃ الفتاویٰ جلد ۴ / ص60

(18)  محدود فی القذف (یعنی جھوٹ کی بنیاد پر کسی شخص پر تہمت لگانے کی وجہ سے حد  دیا ہوا شخص) کا ‘‘ووٹ ’’ قابل قبول ہے اور شہادت قبول نہیں ۔ وفی نظم الزندویسی ستۃ عشر من الشھور لا یقبل شھادتھم العبد ، والمکاتب ، والمدبر اوم الولد و المحدود فی القذف وان تاب عندنا ۔ خلاصۃ الفتاویٰ جلد 4/ ص 58 وایضا : شہادۃ المحدود فی القذف وان تاب لا تقبل ۔ فتاویٰ سراجیہ ص 501

(19)  اور لہو کے طور پر دائمی طور سے شراب پینے والے کی گواہی بھی قبول نہ ہو گی اور ‘‘ ووٹ ’’ قبول ہو گا۔ قال ولا مد من الشرب  علی اللھو لانہ ارتکب محرم دینہ ۔ الھدایۃ جلد 3 / 122 (تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

السوال : کیا ‘‘ ووٹ ’’ شرعا تزکیہ ہے ؟[سمول]

الجواب و من اللہ التوفیق :  تمام علماء اور فقہاء اور محدثین کے ہاں ‘‘ووٹ’’ تزکیہ نہیں ہے بلکہ ان دونوں میں بہت وجوہات سے فرق اور امتیاز ہے کیونکہ ‘‘ ووٹ’’ کا معنی ہے ۔ رائے یا رائے دینا ، اور تزکیہ کی دو قسمیں ہیں۔ 1۔ تزکیہ فی السر اور 2۔ تزکیہ فی العلانیہ پھر تزکیہ  فی السر یہ ہے کہ قاضی تعدیل کرنے والے کے پاس خفیہ رقعہ بھیجے جس میں گواہوں کا نسب، ان کا حلیہ اور مسجد تحریر کرے۔ اور تعدیل کرنے والا اس رقعہ کو (جواب لکھ کر حاکم کے پاس) واپس کرے۔ قال صاحب الھدایۃ: ثم التزکیۃ فی السر ان یبعث المستورۃ الی المدل فیھا النسب اوالحلی والمصلی و یردھا المعدل وکل ذلک فی السر کیلا یظھر فیخدع او یقصد ۔ جلد 3 / ص118

اور تزکیہ فی العلانیہ یہ ہے کہ ضروری ہے کہ قاضی تعدیل کر نے والے اور گراہ دونوں کو جمع کرے تا کہ اس کے علاوہ کی تعدیل کا شبہ جاتا رہے۔ قال صاحب الھدایۃ وفی العلانیۃ لا بد ان یجمع بین المعدل والشاھد لنتفی شبھۃ تعدیل غیرہ۔ الھدایۃ ۔ج 3 / ص 118

فائدہ: مذکورہ تعریفات سے معلوم ہوا کہ ‘‘ووٹ ’’ اور تزکیہ میں ترادف نہیں بلکہ ان دونوں میں فرق ہے کیونکہ تزکیہ فی السر میں تعدیل کرنے والے کو گواہ کے بارے میں تین قسم کا اختیارات ہوتے ہیں۔ اس رقعہ میں لکھے کہ یہ گواہ میرے نزدیک عادل، پسندیدہ مقبول اور جائز الشہادت ہے قال العلامۃ العینی الحنفی: یکتب المزکی فی آخر الرقعۃ انہ عدل مرضی عندی جائز الشھادۃ (البنایۃ جلد 11 / ص352) (2) اور اگر ان کا غیر عادل ہونا معلوم ہوا تو گواہ کے نام کے نیچے کچھ تحریر نہ کرے تا کہ اس کا پردہ فاش نہ ہو صرف (واللہ یعلم) لکھ دے۔ قال وان عرفہ فاسقا ینبغی ان یقول: اللہ یعلم ، سترا علی الشاھد (فتاویٰ سراجیہ ص 500 )قال صاحب البنایۃ نقلا عن فتاویٰ قاضی خان: من عرفہ بالفسق لا یکتب ذلک تحت اسمہ بل یسکت احتراز عن ھتک الستر و یقول اللہ اعلم (البنایۃ جلد 11 / ص 352) (3) اور اگر مزکی گواہ کی عدالت اور فسق دونوں پر مطلع نہ ہو سکا  تو اس کے نام کے نیچے (مسور) لکھ دے ۔ قال صاحب البنایۃ معزیا الی فتاویٰ قاضی خان: ومن لم یعرفہ لا بالعدالۃ ولا بالفسق یکتب تحت اسمہ فی کتاب القاضی مستور ( البنایۃ جلد 11 / ص 352) اور ووٹر کو صرف پہلا اختیار حاصل ہوتا ہے اور تزکیہ میں شاہد حاکم بننا نہیں ہے اور ‘‘ ووٹ’’ میں امیدوار یا حاکم اپنے اوپر حاکم بننا ہے اور تزکیہ میں شاہد قبولیت اور عدم قبولیت کا معیار عدالت اور غیر عدالت ہوتی ہے اور ‘‘ ووٹ’’ میں امیدوار یا حاکم کی قبولیت اور عدم قبولیت کا معیار اکثریت ہوتی ہے ۔ اور تزکیہ فی السر کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے چونکہ حقیقت میں اس خط کو عوام کی نظروں  سے چھپانا مقصود ہتا ہے اور ‘‘ ووٹ’’ کے لئے عوام آگاہ کیے جاتے ہیں اور تزکیہ فی العلانیہ بی ‘‘ووٹ’’ نہیں ہو سکتی لیکن اگر اہم بالفرض تسلیم کرے کہ ‘‘ووٹ’’ تزکیہ فی العلانیہ ہے تو اس میں شہادت کی تمام شرائط معتبر اور ملحوظ نظر ہو گی جو شہادت کی بحث میں گزر گئی ہیں یعنی جس کی شھادت قبول ہو گی تزکیہ بھی قبول ہو گی اور اگر شھادت قبول نہ ہوگی تو تزکیہ بھی قبول نہ ہو گی ۔ قال : ولا تشترط اھلیۃ الشھادۃ فی المزکی فی تزکیۃ السر حتی صلح العبد مزکیا فاما فی تزکیۃ العلانیۃ فھو شرط و کذا العدد بالاجماع علی ما قالہ الخصافؒ ( الھدایۃ جلد 3 / ص119)

(1)       قال: فاما فی تزکیۃ العلانیۃ فھو شرط وکذالعدد بالجماع علی ما قالہ الخصافؒ العنایۃ شرح الھدایۃ جلد 7 / ص382

قال ابو حنیفہؒ : اقبل فی تزکیۃ السر المرأۃ ، والعبد، والمحدود فی القذف اذا کانوا عدولا ولا أقبل فی تزکیۃ العلانیۃ الا من أقبل شھادتہ۔الجوھرۃ النیرۃ جلد 2 / ص149

(2)    قال :  و قیدنا بالتزکیۃ السر احترازاً عن تزکیۃ العلانیۃ فانہ یشترط لھا جمیع ما یشترط فی الشھادۃ من الحریۃ والبصر و غیر ذلک الا لفظ الشھادۃ۔البحر الرائق شرح کنز الدقائق جلد7 / ص 67

(3)    واما تزکیۃ العلانیۃ فیشترط فیھا جمیع ما یشترط فی الشھادۃ۔تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق جلد4 / 212

(4)    واما فی العلانیۃ فلا تجوز الا تزکیۃ من تقبل شھادتہ لہ ۔المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی جلد 8 / ص 98

(5)    المادۃ (1722) التزکیۃ العلنیۃ من قبیل الشھادۃ و تعتبر فیھا شروط الشھادۃ و نصابھا ولکن لا یلزم علی المزکین ذکر لفظ الشھادۃ (مجلۃ الاحکام ۔ ص 349) (تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

سوال :  کیا ‘‘ووٹ’’ شرعا وکالت ہے ؟[سمول]

جواب :  تمام فقہاء اور محدثین کے نزدیک’’ ووٹ ‘‘  شرعا وکالت نہیں ہے کیونکہ ‘‘ووٹ’’ کا معنی ہے رائے یا رائے دینا ۔ فیروز اللغات ص 758 ، اور وکالت کا معنی ہے کسی کو اپنا تصرف کا حق تفویض اور سپرد کر نا اور جس کو حق تصرف دیا جائے اسکو وکیل کہا جاتا ہے۔ قال صاحب کشاف اصطلاحات الفنون و شرعاؒ تفویض التصرف الی غیرہ و ذلک الغیر یسمّٰی وکیلا أی الوکالۃ اقامۃ أحد غیرہ مقام نفسہ فی تصرف معلوم ، مورث لحکم شرعی کشاف اصطلاحات الفنون جلد 4 / 361-۔ 362 والتوکیل اثبات الولایۃ لآخر (فتاویٰ النوازل ص 409)

اور فقہاء کے ہاں یہ تعریف بھی ہے۔ کہ ایک آدمی کسی مخصوص اور معلوم تصرف میں دوسرے آدمی کو اپنا قائم مقام مقرر کر دے۔

فائدہ:  اس مذکورہ  تعریفات سے معلوم ہوا کہ ‘‘ووٹ’’ شرعا وکالت نہیں ہے  کیونکہ ‘‘ووٹ’’ میں ولایت ضروری نہیں بلکہ وہ شخص ‘‘ووٹ’’ کا حقدار ہے جس کو ولایت حاصل نہیں جیسے حکمرانی کی ولایت کافر ، مرتد، شیعہ، قادیانی اور عورت خواہ مسلمان کیوں نہ اسلام میں حاصل نہیں لیکن حکمران کو ‘‘ ووٹ’’ دے سکتے ہیں قال ملک العلماء الکاسانی : ولا ولایۃ للکافر جلد 6 ص 280 قال العلامۃ ابن عابدین : ولان النساء امرن بالقرار فی البیوت فکان مبنی حالھن علی ستر ، والیہ اشار النبی ﷺ حیث قال:کیف یفلح قوم تمکھم امرأۃ (در مختار و رد المختار ج 1 / ص 512)

(1)    وکیل کو جب موکل سامنے کہے کہ تو وکالت سے معزول ہے تو معزول ہوتا ہے لیکن ’’ووٹر‘‘جب امیدوار کو معزول کرنا چاہے تو معزول نہیں سکتا۔ بلکہ وہ پانچ سال کے بعد خود معزول ہوتا ہے۔ عزل الوکیل وانعزالہ :احدھا ان یقول لہ فی الوجہ عزلتک عن الوکالۃ ۔ النتف فی الفتاویٰ ص 511

(2)   ایک عادل اور متقی شخص وکیل کو جب وکالت سے عزل کا خبر دے دے تو وہ وکیل معزول ہو گا لیکن امیدوار کو جب ایک عادل اور متقی شخص عزل کا خبر دے امیدوار معزول نہیں ہو گا۔ قال : والثانی ان یعز لہ عنھا فی حالۃ غبیتہ و یبلغہ الخبر و یکون ذلک الخبر حقا علی لسان من قال، فی قول ابی یوسف ومحمد وأبی عبد اللہ و لا ینعزل فی قول ابی حنیفہ حتی یخبرہ رجلان او  رجل عدل النتف فی الفتاویٰ ص 511

(3)   جب موکل مجنون ہو جائے تو وکیل خود بخود وکالت سے معزول ہوتا ہے لیکن جب ووٹر مجنون ہو جائے تو امیدوار معزول نہیں ہوتا قال:والثالث اذا جن الموکل ۔ النتف فی الفتاویٰ ص 511 و یبطل الوکالۃ بموت الموکل وجنونہ جنونا مطبقا۔ الھدایۃ جلد 3 / ص 207۔ 206

(4)   جب موکل مرتد ہو جائے اور دارالحرب کو چلا جائے ، تو وکیل وکالت سے معزول ہو گا لیکن جب ووٹر مرتد ہو جائے اور دارالحرب کو چلا جائے یا دارالحرب میں رہتا ہو تو امیدوار معزول نہیں ہو گا ۔ قال : والرابع اذا ارتد ولحق بدار الحرب مرتدا:الھدایۃ جلد 3 ص 206۔207

(5)   جب  موکل فوت ہوجائے تو وکیل معزول ہو گا لیکن جب ووٹر فوت ہو جائے تو پھر بھی امیدوار معزول نہ ہو گا۔ قال الخامس اذا مات ای الموکل ۔ النتف فی الفتاویٰ ص 511 / ویبطل بموت الموکل الھدایۃ ج 3 /ص207 وقال النسفی ؒ :وتبطل الوکالۃ بعز لہ (ای بعزل الموکل) ان علم (ای الوکیل) بہ و موت احدھما کنز الدقائق ص 343

(6)   جب موکل وکیل کسی غرض یا کام کے لئے وکیل بنائے پھر خود وہی کام کرے تو وکیل معزول ہوگا لیکن جب ووٹر جب امیدوار کو کسی غرض کے بنیاد پر ‘‘ ووٹ’’ دے پھر وہی کام خود کرے تو امیدوار معزول نہ ہو گا قال صاحب الھدایۃ:ومن وکل آخر بشیٔ ثم تصرف بنفسہ فیما وکل بہ بطلت الوکالۃ ۔ الھدایۃ جلد 3ص 206۔207

(7)   جب وکیل کو اپنی وکالت کا خبر نہ ہو اور موکل نے وکیل بنایا ہو تو موکل بغیر خبر دینے کے معزول کر سکتا ہے لیکن جب ووٹر کسی امیدوار یا حکمران کو ‘‘ووٹ’’ دے اور وہ اسکو معلوم نہ ہو تو ووٹر پھر بھی معزول نہیں کر سکتا ۔ قال محشی الکنز: وقولہ ان علم بہ:أی ان علم الوکیل بالعزل فان لم یبلغہ العزل لا ینعزل ھذا کان عالماً بالوکالۃ فلو وکلہ علم یعلم بھا فلہ عزلہ وان لم یعلم بہ الخ ملتقطا عن عینی و فتح ۔حاشۃ کنز الدقائق ص 343

(8)   خلاف شرع امور میں ’’ووٹ ‘‘دینا جمہوری نظام میں جائز ہے لیکن اسلام میں خلاف شرع امور میں وکالت جائز نہیں قال ابوللیث السمرقندیؒ:کل عقد جاز ان یعقدہ الانسان بنفسہ جاز ان یوکل غیرہ ۔ فتاویٰ النوازل ص 409 ۔

(9)   اگر وکیل کو علم ہو کہ موکل کا ارادہ کسی کو ضرر دینے یا جھوٹ بولنےپر آمادہ کرنے یا دھوکہ خیانت کرانے یا باطل حیلے میں پھنسانے کا ہے تو وکیل کے لئے اسلام میں وکیل بننا جائز نہیں لیکن جمہوری نظام میں امیدوار کو ‘‘ووٹ’’ قبول کرنا جائز ہے ۔ قال:وان علم من الموکل القصد الی الاضرار بالمدعی لیشتغل الوکیل بالحیل والاباطیل والتلبیس لا یقبل منہ التوکیل (فتاویٰ قاضی خان جلد 3 / ص 7)

(تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

السوال:  کیا ’’ووٹ‘‘جو جمہوری نظام کے تحت استعمال کیا جاتا ہے یہ شرعاً امانت ہے؟[سمول]

الجواب: تمام فقہاء اور محدثین کے نزدیک’’ ووٹ‘‘ شرعا امانت نہیں ہے کیونکہ ’’ووٹ‘‘کا معنی ہے رائے یا رائے دینا اور امانت کا معنی ہے ارادہ کرنے کے بغیر مالک کے ملک کے بقاء کے ساتھ کسی اہل تصرف کے ہاں عین شیٔ چھوڑنا۔ وعند اھل الشرع ترک الاعیان مع من ھو اھل للتصرف فی الحفظ مع بقائھا علی ملک المالک ، والفرق بینھا و بین الأمانۃ ان الودیعۃ ھی الاستحفاظ قصدا ، والأمانۃ ھی الشیٔ الذی وقع فی یدہ من غیر قصد، بان ألقت الریح ثوباً فی حجرہ، کشاف اصطلاحات الفنون۔ باب الواو جلد 4 / ص325 ۔ودیعت اور امانت  میں فرق یہ ہے کہ امانت عام ہے اور ودیعت خاص ہے۔ کیونکہ ودیعت میں غیر سے حفاظت کرانا قصداً مطلوب ہوتا ہے اور امانت کبھی بلا قصد بھی ہوتی ہے۔ مثلاً ہوا نے کسی کا کپڑا اڑا کر دوسرے کے گھر میں ڈال دیا تو وہ کپڑا اس کے پاس امانت ہے۔ اور امانت کی دوسری تعریف یہ ہے کہ امانت ایسی چیز کو کہا جاتا ہے کہ امین بنا ہوا شخص کے ساتھ موجود ہو۔(المادۃ ۷۶۲) امانۃ ھی الشیٔ المجود عند الشخص الذی اتخذ امینا(درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام جلد 2 / ص199)

فائدہ:  مذکورہ تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ امانت ایسی شیٔ ہے کہ جس کا اداء کرنا آمین ضروری ہوتا ہے کہ مستحق کو دے دے اور مستحق متعین ہوتا ہے اور’’  ووٹ‘‘میں اپنی مرضی کے ساتھ کسی کو دینے سے اداء ہوتاہے جس میں مستحق متعین نہیں ہوتا مسلمان، کافر، قادیانی، شیعہ، مرتد، ہر کوئی کے دینے سے جمہوری نظام کے تحت ‘‘ووٹ’’ اداء شمار ہوتا ہے قال صاحب اصطلاحات الفنون : وفی الامانۃ لا یبرء الا بالاراء الی صاحبھا ، کذا فی الجوھرۃ النیرۃ (باب الواو ۔ جلد 4 / ص 325) اور’’  ووٹ‘‘کا نہ استعمال کی وجہ سے کسی امیدوار ووٹر کے خلاف مقدمہ اور دعویٰ نہیں درج کر سکتا ہے کہ میری امانت وصول کرے اور امین جب مستحق کو امانت دینے سےا انکار کرے ، تو اسکے خلاف مقدمہ اور دعویٰ درج کیا جاسکتا ہے۔

(1)    امانت ہر وقت اداء ہوتے ہے اور’’ ووٹ‘‘ ہر وقت ادا نہیں ہوتا بلکہ مخصوص ایام میں اداء ہوتا ہے۔

(2)   امانت میں امین خود مختار نہیں ہوتا بلکہ مستحق کو رسانے اور اداء کرنے پر مأمور ہوتا ہے اور’’ ووٹ ‘‘میں ووٹر خود مختار ہوتا ہے جس کو ووٹ دینا چاہے دے سکتا ہے ۔ (المادۃ 794 اذا طلب الودیعۃ صاحبھا لزم ردّھا و تسلیمھا لہ ۔ درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام جلد 2 /ص189)

(3)     امانت اداء کرنا  اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور’’ووٹ‘‘ کا اداء کرنا پارلیمان کا حکم ہے ان میں فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہر وقت امانت اداء کرنا امانت کا اداء شمار ہو گا، اور پارلیمان کے حکم کے مطابق ‘‘ووٹ’’ کا ڈالنا ہر وقت’’ووٹ ‘‘ شمار نہ ہوگا بلکہ مخصوص ایام میں’’ ووٹ‘‘ڈالنا’’ ووٹ‘‘شمار ہو گا۔

(4)   کسی امانت میں مستحق کی اجازت کے بغیر کسی قسم تصر ف کرنے سے امین پر مان ہوگا لین’’ ووٹ ‘‘کسی امیدوار یا حکم کی اجازت کے بغیر ایام الکشن میں ہر کسی کو دینے پر کوئی ضمان عائد نہ ہو گا۔ کیونکہ’’ ووٹ‘‘کا استعمال ووٹر اپنی ذاتی حق سمجھتا ہے ۔ قال العلامۃ ابن نجیم المصری الحنفی : وکذا المتولی الامین اذا خلط بعض اموال الناس ببعض او الامانۃ بما لہ فانہ ضامن ، (الاشباہ والنظائر ص 235 الودیعۃ امانۃ الخ و فی البحر : وحکم الودیعۃ والامانۃ مختلف فی بعض الصور لان فی الودیعۃ یبرأ عن الضمان اذا عاد الی الوفاق و فی الامانۃ لا یبرأ عن الضمان بعد الخلاف۔ ( البیانۃ شرح الھدایۃ جلد 12 / ص434)

(5)   اور’’ووٹ ‘‘18 سال سے کم عمر والا مکلف نہیں اداء کر سکتا ، لیکن امانت اداء کر سکتا ہے۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بلا واسطہ ہوں گے، جن کی عمر 18سال سے کم نہ ہو، ووٹ دینے کے مجاز ہوں گے۔ اس دوران میں ووٹروں کی عمر 21 سال سے رہے گی جو پہلے بھی تھی۔ آئین پاکستان 1973 مؤلف ڈاکٹر صفدر محمود ص59 ۔ قال الامام الجصاص الحنفی فی تفسیر قولہ تعالیٰ:ان اللہ یأمرکم ان تؤدوا لاامانات الی اھلھا (ان اللہ یأمرکم ) خطاب یقتضی عمومہ سائر المکلفین ۔ احکام القرآن للجصاص ۔ جلد 2/ص259

(6)   ’’ ووٹ ‘‘کے لئے شناختی کارڈ شرط ہے اور امانت کے لئے شناختی کارڈ شرط نہیں ہے: (قال الامام الجصاص الحنفی (ان اللہ یأمرکم ) خطاب یقتضی عمومہ سائر المکلفین (احکام القرآن للجصاص ج 2 / ص259)

السوال: ’’ ووٹ  ‘‘کے لئے اس آیت کریمہ سے استدلال کرنا ۔ بعض لوگ ووٹ کے لئے اس آیۃ (ان اللہ یأمرکم ان تؤدوا الامانات الی اھلھا ) سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ووٹ‘‘محض دنیاوی معاملہ نہیں ، بلکہ از روئے شریعت یہ ایک مقدس امانت ہے کیا یہ استدلال صحیح اور ٹھیک ہے؟

الجواب: اس آیت مبارکہ سے’’ووٹ‘‘کے لئے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ اس آیت مبارکہ میں اگر چہ حکام کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر مکلف اس میں داخل ہے لیکن جب اس سے مناصب حکومت اور عہدوں کے لئے استدلال کیا جائے کہ یہ امانتیں ہیں تو یہ باشندگان ملک کے حقوق قرار دینا جیسے ووٹینگ میں ہوتا ہے صحیح نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی امانتیں ہیں جو صرف انکے اہل اور لائق لوگوں کو دئیے جا سکتے ہیں۔ اور امین ان امانتیں میں حکام اور امراء ہیں۔قال ابو الفضل العلامۃ الالوسیؒ:ان ھذا خطاب لولاۃ الأمر ان یقوموا برعایۃ الرعیۃ و حملھم علی موجب الدین والشریعۃ،و عدوا من ذلک تولیۃ المناصب مستحقیھا،و جعلوا الخطاب الآتی لھم ایضا۔(روح المعانی ۔ جلد 5 / ص90)  ا ور حضرت مفتی محمد شفیع  ؒ فرماتے ہیں: کہ قرآن حکیم کے اس جملہ نے اس عام غلطی کو بھی دور کر دیا جو اکثر ممالک کے دستوروں میں چل رہی ہے کہ حکومت کے عہدوں کو باشندگان ملک کے حقوق قرار دیدیا ہے ۔ اور اس طرح فرماتے ہیں کہ حکومت کے عہدے باشندگان ملک کے حقوق نہیں جن کو تناسب آبادی کے اصول پر تقسیم کیا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی امانتیں ہیں جو صرف انکے اہل اور لائق لوگوں کو دئیے جا سکتے ہیں۔ معارف القرآن جلد 2/ ص449

السوال:۔ ’’ووٹ ‘‘کی شرعی حیثیت کے بارے میں تقریباً پندرہ اور بیس فتاویٰ اور دیگر کتب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ‘‘ووٹ’’ بلا شبہ شہادت ہے یا وکالت ہے یا شفاعت ہے وغیرہ کیا یہ مفتیان عظامؒ اور علماء کرامؒ نے جو یہی بات لکھی ہے اور ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے نقل کیے ہیں کیا ایسے ایتنا کثیر تعداد اور بڑے بڑے مفتیان عظام کی غلطی سے نقل کرنے کی کوئی نظیر فقہ حنفی میں موجود ہے ؟

الجواب:۔  فقہ حنفی میں معیار ترجیح قوت دلیل ہے نہ کہ کثرت نقل اسی بنیاد پر علامہ ابن نجیم ؒ نے فرمایا ہے : کہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک مصنف غلطی سے کوئی بات اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے، پھر بعد کے علماء اس عبارت کو بعینہ نقل کرتے ہیں، نہ اس کی اصلاح کرتے ہیں، نہ غلطی پر تنبیہ کرتے ہیں، پھر دوسرے بہت سے حضرات اس کو نقل کرتے ہیں، حالانکہ پہلے لکھنے والے سے غلطی سر زد ہوئی ہوتی ہے۔

قال:وقد یقع کثیرا ن مؤلفا یذکر شیئا خطا فی کتابہ،فیأتی من بعدہ من المشایخ، فیقتلون تلک العبارۃ من غیر تغییر ولا تنبیہ ، فیکثر الناقلون لھا، و اصلھا والواحد مخطیٔ (البحر الرائق جلد 6 / ص185)

اور اس طرح علامہ شامی رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ متاخرین کی کتابوں میں بیس کتابوں تک ایک بات نقل ہوتی چلی جاتی ہے حالانکہ اس مسئلے کو پہلے بیان کرنے والے شخص سے غلطی ہوئی ہوتی ہے، مگر بعد کے لوگ اس پر اعتماد کرکے نقل کرتے رہتے ہیں ۔ وقد یتفق قول فی نحو عشرین کتابا من کتب المتاخرین ویکون القول خطأ اخطأ بہ اول واضع لہ فیأتی من بعدہ و ینقلہ عنہ و ھکذا ینقل بعضھم عن بعض (شرح عقود رسم المفتی ص 23)

اور اسکے  بعد چار مسائل کے ضمن میں کبار فقہاء کی تسامحات نقل کی ہے جیسے علامہ بن الھمام ؒ اور علامہ تھرتاشی ؒ اور علامہ خیر الدین الرملی ؒ اور صاحب ؒ السراج الوھاج اور صاحبؒ الجوھرۃ النیرۃ اور ابن ملک ؒ اور صاحبؒ فتاویٰ بزازیہ اور ملا خسروؒ اور ان جیسے بڑے بڑے فقہاء کی تسامحات نقل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہ حنفی میں محض کثرت نقل معیار ترجیح نہ ہو گی بلکہ قوت دلیل معیار ترجیح ہو گا۔

السوال :۔  کیا’’ ووٹ ‘ ‘شرعا شفاعت ہے ؟

الجواب:۔  تمام فقہاء کرام اور محدثین کے نزدیک’’ووٹ  ‘‘اور شفاعت میں بہت وجوہ سے فرق اور امتیاز ہے کیونکہ ‘‘ووٹ’’ کا معنی ہے رائے یا رائے دینا، فیروز اللغات ص 758 اور شفاعت کا معنی ہے جس کے حق میں جرم ہوا ہے اس سے درخواست کر نا کہ وہ گناہوں کو درگزر کر دے۔

الشفاعۃ ھی السؤال فی التجاوز عن الذنوب من الذی وقع الجنایۃ فی حقہ ۔ کتاب التعریفات باب الشین ص 119

فائدہ:  مذکورہ تعریفات سے معلوم ہوا کہ’’ ووٹ‘‘اور شفاعت میں فرق واضح ہے کیونکہ ’’ ووٹ ‘‘میں کسی کیلئے سوال کرنا نہیں ہوتا لیکن شفاعت میں سوال ہوتا ہے اور’’ ووٹ‘ ‘ ڈالنے میں ووٹر تضرع اور عاجزی کرنے والا اپنے آپ کو نہیں سمجھتے لیکن شفیع شفاعت کریگا علی سبیل تضرع یعنی عاجزی کے ساتھ  اور مشفوع لہ اپنے آپ کو مجرم اور گنہگار سمجھتا ہو لیکن امیدوار کبھی بھی اپنے آپ کو مجرم اور گنہگار نہیں سمجھتا بلک ’’ ووٹ‘‘ملنا اپنا حق سمجھتا ہے۔

1)       مشفوع الیہ کثرت شفعاء کے باوجود  بھی شفاعت قبول ہونے اور نہ ہونے میں خود مختار ہوتا ہے لیکن ووٹروں کے’’ ووٹ ‘‘جب زیادہ ہو جائیں تو قبول کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ قالت (أبریرہ ؓ) یا رسول اللہ ؐ اتأمرنی قالؐ انما نا شفیع قالت فلا حاجۃ لی فیہ ۔ شفاعۃ الجاکو للخصوم بل فصل الحکم ۔ سنن النسائی جلد 2 / ص310

2)       خلاف شرع امور میں شفاعت اسلام میں جائز نہیں لیکن’’ ووٹ ‘‘دینا جمہوری نظام کے تحت جائز  ہے قال: وکذا العفو عن ذنب لیس فیہ حد اذا لم یکن المذنب مصرا، فان کان مصرا لا یجوز حتی یرتدع عن الذنب و الاصرار و مثلہ فی حاشیۃ الحموی عن شرح مسلم للامام النوویؒ۔ الدر المختار مع رد المختار فصل فیما یوجب القود وما لا یوجب ۔ جلد 6 /  ص 549

3)       شفاعت میں امور مباحہ ملحوظ نظر ہوتے ہیں لیکن ووٹینگ میں مباح اور غیر مباح کی کوئی لحاظ نہیں ہوتا ہے قال وفی البیریّ  قال الاکمل فی حدیث(اشفعوا تواجروا)ولایتناول الحدیث الحدیث الحدود فتبقی الشفاعۃ لارباب الحوائج المباحۃ ۔الد رالمختار مع رد المختار فصل فیما یوجب القود ومالایوجب ج6ص549۔

4)       شفاعت میں مسلمان کی اعانت اور اس سے دفع ظلم ہوتا ہے لیکن’’ووٹ ‘‘دینے میں مسلمان ہونا ضروری نہیں بلک قادیانی اور شیعہ کو ووٹ دے سکتا ہے ۔قال :ولما فیہ من اعانۃ المسلم، ودفع الظلم عنہ ۔غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر ۔تنبیہ القصاص کالحدود فی الدفع۔ج1ص387۔

5)       شفیع مشفوع لہ سے اکثر"احترام" اور مرتبہ میں زیادہ ہوتا ہے لیکن امیدوار یا حکم ہمیشہ ووٹر سے احترام اور مرتبہ میں زیادہ ہے قال الرغب الاصفھانی واکثر مایستعمل فی انضمام من ھو اعلی حرمۃ ومرتبۃ الی من ھو أدنی ۔کتاب الشین مفردات القران ص281۔

6)       اللہ تعالی کی قائم کردہ کسی حد میں حاکم کے پاس اس کا معاملہ پہنچے کے بعد شفاعت کرنا حرام ہے لیکن اس پر ووٹ کرنا جمہوریت میں حرام نہیں بلکہ سارق کےلئے ووٹ کے واسطے سے ہاتھ کاٹ کرے کے  بجائے سزا قید کرنا ہے۔ قالابن عابدین (فلا یتجوز الشفاعۃ فیہ )تفریع علی قولہ : تجب الخ قال فی الفتح مدانہ طلب ترک الواجب ،ولذاانکر ﷺ اسامۃ بن زید حین شفع دی المخزومیہ التی سرقت فقال‘اشفع فی حد من حدود اللہ’حاشیۃ ابن عابدین ۔کتاب الحدود ج6ص6۔

سوال :۔  بعض لوگ مغربی طرز انتخاب (یعنی ووٹ کا استعمال کرنا) اور جمہوریت میں حصہ لینا حالت اضطرار اور مجبوریت متصور کرتے ہوئے کہتے ہیں عصر حاضر کے علماء با امر مجبوری اس مغبری طرز انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں؟ (علماء اور عوام سیاسی میدان میں صفحہ 59)

(تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

جواب: حامدا و مصلیا:[سمول]

مضطر اور مجبور شرعی اصطلاح میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جسکی جان خطرہ میں ہو۔  اس کےبعد یہ جاننا ضروری ہے کہ حرام چیز کو جائز مقصد کیلئے وسیلہ قرار دینے کیلئے شریعت میں شرائط وضع ہوئی ہیں۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:فمن اضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ ان اللہ غفور رحیم۔الایۃ یعنی جو شخص بھوک سے بہت ہی بے تاب ہو جائے، بشرطیکہ نہ تو کھانے میں طالب لذت ہو، اور نہ قدر ضرورت سے تجاوز کرنے والا ہو تو اس حالت میں اُن حرام چیزوں کو کھالینے سے بھی اس شخص کو کوئی گناہ نہیں ہوتا بے شک اللہ تعالیٰ ہیں بڑے غفور و رحیم۔ چنانچہ مفتی محمد شفیع   ؒ حرام چیز کا استعمال کرنے کی شرائط ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اول یہ کہ حالت اضطرار کی ہو ، خطرہ جان جانے کا ہو معمولی تکلیف و بیماری کا یہ حکم نہیں ہے ، دوسرے یہ کہ بجز حرام چیز کے اور کوئی چیز علاج و دواء کیلئے مؤثر نہ ہو یا موجود نہ ہو، جیسے شدید بھوک کی حالت میں استثناء، اسی وقت ہے، جبکہ کوئی دوسری  حلال غذاء موجود مقدور نہ ہو، تیسرے یہ کہ اس حرام کے استعمال کرنے سے جان بچ جانا یقینی ہو، جیسے بھوک سے مضطر کیلئے ایک دو لقمہ حرام گوشت کا کھا لینا عادتاً اسکی جان بچانے کا یقینی سامان ہے، اگر کوئی دواء ایسی ہ کہ اس کااستعمال مفید ہو تو معلوم ہوتا ہے، مگر اس سے شفاء یقینی نہیں تو اس دواء حرام کا استعمال آیات مذکورہ کے استثنائی حکم میں داخل ہو کر جائز نہیں ہو گا، اس کے ساتھ مزید دو شرطیں آیت قرآنی میں منصوص ہیں، کہ اس کے استعمال سے لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو اور قدر ضرورت سے زائد استعمال نہ کرے۔ (معارف القرآن جلد 1 ص 425)

فائدہ: مذکورہ بالا شرائط سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی طرز انتخاب اور جمہوریت میں حصہ لینا حالت اضطرار میں داخل نہیں بلکہ ان دونوں میں بہت وجوہات سے فرق ہے ۔ کیونکہ حالت اضطرار میں حرام چیز کے استعمال کرنے کے بغیر جان جانے کا فطرہ ہوتی ہے لیکن مغربی طرز انتخاب اور جمہوریت کے بغیر اسلامی نظام قائم کرنا خطرہ میں نہیں بلکہ دورسرے راستے سے بھی قائم ہو سکتا ہے۔

دوسرا  یہ کہ حرام طریقہ کے علاوہ دوسرا طریقہ بھی موجود نہ ہو حالانکہ مغربی طرز انتخاب اور جمہوریت کے علاوہ بہت سے راستے موجود ہیں۔

تیسرا یہ کہ اس حرام چیز سے جائز مقصد حاصل ہونا یقینی ہو لیکن مغبربی و جمہوری طرز انتخاب سے اسلامی نظام لانا یعنی درکنار مظنون بھی نہیں۔

چوتھا یہ کہ قدر ضرورت سے زائد استعمال نہ کرے ، لیکن مغربی و جمہوری طرز انتخابات صدی بہ صدبی استعمال ہو رہا ہے، تو پھر کیسے حالت اضطرار اور مجبوریت میں داخل مقصود ہو گا۔

السوال:۔  بعض لوگ جمہوری سیاست کے اثبات کیلئے اس حدیث مبارک (کانت بنوا اسرائیل تسوسھم الخ رواہ البخاری) سے استدلال کرتے ہیں کیا اس حدیث سے جمہوری سیاست ثابت ہوتی ہے؟

الجواب :حامداً و مصلیا:

اس حدیث میں ذکر شد ہشیاست سے شرعی سیاست مراد ہے جو مکمل طور پر شریعت کے ساتھ موافق ہو چنانچہ حضرت العلامۃ بدر الدین العینی الحنفی 855ھ تحریر فرماتے ہیں کہ : بنی اسرائیل کے انبیاء ان کے امور کا نظم و نسق ایسے انداز سے کیا کرتے تھے جس طرح حاکم اپنی رعیت کے امور کا نظم و نسق کیا کرتے ہیں۔ سیاست ایک چیز کی اصلاح کے لیے لازمی تدابیر اختیار کرنے سے عبارت ہے ، جب لوگوں میں فساد شروع ہو جاتا تو اللہ تعالیٰ ان کے پاس ایک پیغمبر بھیج دیتاہے تا کہ ان کے درمیان سے فساد ختم کر دے اور ان کی حالت بہتر بنا دے اور ان تغیرات کو جو انہوں نے تورات میں کیں ختم کر دے ۔

قال:تتولی امورھم کما تنعل الامراء والولاۃ بالرعیۃ والسیاسۃ: القیام علی الشیٔ بما یصلحہ:و ذلک لانھم کانوا اذا ظھروا الفساد بعثہ اللہ نبیا یزیل الفسادعنھم، ویقیم لھم امرھم و یزیل ما غیروا من حکم التوراۃ (عمدۃ القاری جلد 16 / ص67 کتاب الانبیاء)

اور اسی طرح العلامۃ الحافظ ابن القیم الجوزی انبیاء علیھم السلام کی سیاست کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اصل چیز دین ہے اور انبیائے کرام لوگوں کو ڈرانے اور آخرت کی طرف ترغیب دینے کے ساتھ لوگوں کے حالات کی اصلاح فرماتے تھے۔ اور جب طبیعتوں کے قوت غلبہ کی وجہ سے یہ طریقہ لوگوں کی اصلاح میں کافی نہ ہوتا تو پھر لوگوں کی اصلاح دنیاوی سزا دینے دے فرماتے جیسے قتل کرنا اور حدود قائم کرنا۔

قال: ان الاصل المۃ والدین، والانبیاء تسوس بالترھیب والتشویق الاخروی ولما لم یکن ذلک فی ردع النفوس لقوۃ غلبہ الطباع ردعت بالتحذیر الدنیاوی کالقتل والحد:۔ (المصباح المضیٔ فی خلافۃ المستضی ج1 / ص 449 ، 450

اور واضح  رہے کہ سیاست شرعی اور سیاست جمہوری کے درمیان میں فرق ہے کیونکہ سیاست شرعیہ کا اعتماد شرعی اسول اور قواعد پر ہوتا ہے یعنی وہ ادلۃ اربعہ کے موافق ہوتی ہے اور جمہوری اور وضعی سیاست وہ احکام اور قوانین ہیں جو عرف، عادت، مختلف تجربوں اور باقی ماندہ اوضاع سے مستفاد ہوں آسمانی وحی کے ساتھ تعلق نہ ہو اور نہ ان میں اسلامی تشریع کے مصادر کا لحاط ہو بلکہ ان قوانین کو لوگوں نے امت کے کاموں کی برابری کے لیے وضع کیا ہو۔ اور ان آراء مذاہب اور مفاسد عقائد اور نظریات کے اعتبار سے اس پر چلنے کے لیے وضع کیاہو۔ قال صاحب السیاسۃ الشرعیۃ:فانھا قوانین واحکام مستمدۃ من العرف والعادۃ ، أومن مختلف التجارب والاوضاع المتوارثۃ من غیر ان یراعی فیھا ارتباطھا بالوحی السماوی، او اعتمادھا علی مصادر التشریع الاسلامی،بل وضعھا للناس التدبیر شؤون اممھم،والسیربھا حسب آرائھم،و معتقداتھم الفاسدۃ (جمیلۃ عبدالقادر السیاسۃ الشرعیۃ ص 61)

فائدہ: مذکورہ باا عبارات سے معلوم ہوا کہ حدیث مبارکہ سے جمہوری سیاست ثابت کرنا صحیح نہیں بلکہ اس سے غیر جمہوری سیاست مراد ہے جو کہ عقل کے بجائے وحی الھی سے مستفاد اور حاصل شدہ ہے اور اس لیے علامہ شمس الحق افغانی ؒ فرماتے ہیں کہ سیاست کی دو قسمیں ہیں الہی سیاست ، انسانی سیاست : اس عقیدہ پر استوار سیاست کہ جس طرح اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا حاکم اعلیٰ بھی ہے اور تما مخلوقات بغیر استثناء اللہ تعالی کی رعیت اور محکوم ہیں ، الہی سیاست ہے اور اگر سیاست اس عقیدہ پر بنی ہوئے نہ ہو تو پھر انسانی سیاست ہے۔ (دروس الفاتحۃ من افاتہ علامہ شمس الحق افغانی ؒ ص 345)

سوال:۔  بعض مذہب جماعت جمہوریت کی بقاء اور تحفظ کے لیے قربانیاں دیتی ہیں ار اسکی بقاء کیلئے جلسے جلوسیں بھی نکالتے ہیں اور مدرسے کے طلباء اور علماء کو بھی اپنے جلسے میں شامل کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شرعی جہاد ہے کیا یہ جہاد ہے ؟

جواب:۔  حامداً و مصلیا:

جمہوریت کی بقاء کیلئے قربانیاں دینا یا اسکی تحفط کیلئے جدو جہد کرنا کفاروں کا شعار ہے مسلمان اسلامی نظام قائم کرنے کیلئے قربانیاں دیتے ہیں جس پر تمام انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام کا مبارک جدو جہد اور تمام صحابہ رضوان علیھم اجمعین کا کردار اور تمام ائمہ اور فقھاء اور محدثین رحمہم اللہ تعالیٰ اور تمام مجاہدین اسلام نصرھم اللہ تعالیٰ کے قربانیاں واضح اور نصف نھار کی طرح روشن دلیل ہے اور جمہوریت کی بقاء اور تحفظ کے لئے جلسے اور جلوسیں نکالنا کبھی بھی جہاد نہیں چنانچہ علامہ ظفر احمد العثمانی ؒ اعلاءالسنن میں فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے لوگوں نے اس کو یورپ سے لیا ہے اور بھوک پڑتال کے سوا عوامی مظاہرے اس صورت میں جائز ہیں کہ کافروں سے کیا گیا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا جائے اور ان مظاہروں کے ذریعے ان کفار پر غلبے کی امید ہو اور اسکا مقصد اللہ کی کلمے کی سربلندی اور ان کفار کو دین کی طرف دعوت ہو، نہ کہ محض وطن کی آزادی اور ایک ایسی جمہوری ریاست کا قیام ہو جس میں بعض مسلمان اور بعض کفار اراکین شامل ہو۔ کیونکہ اس کے لئے کوشش کرنا جہاد نہیں کہلائے گا اس کے اصلی مقصد یعنی اعلاء کلمۃ اللہ اور دین مبین کی جانب دعوت دے خالی ہونے کی وجہ سے۔

اور ایسی حکومت جو مسلمان اراکین پارلیمان اور کافروں سے بنی ہو، کبھی بھی اسلامی حکومت نہیں سکتی، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ کفر ہی کی سلطنت ہو گی۔ قال انما اخذ زمان ابناءزماننا من اوربا و یجوز استعمال ما یسوی الاول بعد النبذ الیھم ولی سواء اذا کنا نرجوا الشوکۃ علیھم بذلک، وکان المقصود اعلاء کلمۃ اللہ والدعاء الی الدین دون احرار الوطن واقامۃ السلطنۃ الجمہوریۃ المرکبۃ من اعضاءبعضھم مسلمون و بعضھم کفرۃ مشرکون، فان بذل الجھد لذلک لیس من الجھاد فی شیٔ لخلوہ عن غرضہ الاصلی وھو اعلاء کلمۃ اللہ والدعاء الی الدین القویم و السلطنۃ المرکبۃ من اعضاء المسلمین و الکافرین لا یکون سلطنۃ اسلامیۃ قط۔ وانما ھی سلطنۃ الکفر۔ (اعلاء السنن باب نصب المجانیق جلد 12/ص24)

فائدہ : حضرت العلامۃ شیخ الاسلام ظفر احمد العثمانیؒ کی یہ عبارت ( کہ جہاد کا مقصد جمہوری حکومت کا قائم کرنا نہیں بلکہ جہاد کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہے) پر بہت سے فقہاء کرام کی عبارات شاہد عدل ہیں۔

چنانچہ امام محمد الشیبانی الحنفی ؒ (المتوفی 189 ھ) فرماتے ہیں فان المقصود منہ اعلاء کلمۃ اللہ واعزاز الدین ۔(الکسب ص 71)

اور حضرت الفقیہ عثمان فخر الدین الزیلعی الحنفی ؒ (المتوفی 743ھ) تحریر فرماتے ہیں ما وضع  الجھاد لہ ھو اعلاء کلمۃ اللہ تعالیٰ ۔  (تبیین الحقائق جلد 1 / ص169)

حضرت العلامۃ المحدث بدر الدین  العینی الحنفی ؒ (المتوفی 855ھ) فرماتے ہیں کہ :ھواعلاء کلمۃ اللہ تعالیٰ و اظھار الدین فی بلد الکفر ( البنایۃ جلد 7 / ص 100)

حضرت العلامۃ احمد بن محمد الطحطاوی الحنفی ؒ (المتوفی 1231 ھ ) تحریر فرماتے ہیں کہ: موضوع الجھاد وھو اعلاء کلمۃ اللہ تعالیٰ ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص387)

اور حضرت ابو بکر الحدادی الحنفی ؒ (المتوفی 800 ھ) فرماتے ہیں: ما وُضع لہ الجھاد ھو اعلاء کلمۃ اللہ ۔ (الجوھرۃ النیرۃ جلد 1/ ص 70)

(تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

مسئلہ:  طلب القضاء والولاء[سمول]

شریعت میں کسی افضل شخص کے موجود ہونے کے باوجود مفضول (غیر افضل) شخص کو عہدہ طلب کرنا جائز نہیں ہے۔

فائدہ:  جمہوریت میں بلا امتیاز فضیلت ہر شہری عہدہ طلب کر سکتا ہے اور عہدہ حاصل کرنے کیلئے اپنے تقابل کو ناکام کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے حتی کہ ایک دوسرے کو بدنام اور بے عزت کرنے سے احتراز نہیں کرتا اور اسلامی تعلیمات میں یہ ہے کہ جو شخص عہدہ طلب کرے اسکو عہدہ مت دینا اور جمہوریت میں عہدے طلب کیے جاتے ہیں اور ان کیلئے رشوتیں دی جاتی ہیں اور بہت قسم کی فضول خرچیاں اور اسراف ہوتے ہیں۔ فألی اللّٰہ المشتکی ۔

         چنانچہ حضرت العلامۃ ابوبکر الحدادی الحنفی ( المتوفی 800ھ) فرماتے ہیں : ولا ینبغی ان یطلب الولایۃ ولا یسألھا أی لا یطلبھا بقلبہ ولا یسألھا بلسانہ (الجوھرۃ النیرۃ جلد 2/102)

حضرت علامہ برھان الدین المرغینانی الحنفی ؒ (المتوفی 593ھ ) تحریر فرماتے ہیں : و ینبغی ان لا یطلب الولایۃ ولا یسألھا (الھدایۃ جلد 3 / 102)

حضرت علامہ بدر الدین العینی الحنفی ؒ  (المتوفی 855 ھ ) فرماتے ہیں: لا یحل طلب الولایۃ بالشفعاء ۔ (فتح القدیر جلد 7/ ص 255)

حضرت صاحب الموسوعۃ الفقہیۃ تحریر فرماتے ہیں ۔ ذھب جمھور الفقھاء الی انہ یکرہ للانسان طلب القضاء والسعی فی تحصیلہ لما روی انس رضی اللہ عنہ عن النبی انہ قال من ابتغی القضاء سأل فیہ شفعاء وُکل الی نفسہ ، ومن اکرہ علیہ أنزل اللہ ملکاً یُسددہ (2) لکن بعض الفقھاء یقید الکراھۃ ھنا بوجود من افضل من طالب القضاء ممن ھو قادرٌ علی القیام بہ یرضی بان یتولاہ، وقیل بل یحرم علیہ الطلب ان کان غیر اصلح للقضاء وکان الاصلح یقبل التولیۃ (الموسعۃ الفقھیۃ الکونیۃ جلد 33 / ص 563)

مسئلہ:اسلامی نظام اور شریعت میں کسی کافر مسلمانوں کیلئے چیف جسٹس یا جج وغیرہ مقرر کر دیان جائز نہیں ہے۔

فائدہ: جمہوریت میں کا فر کو چیف جسٹس یا جج مقرر کرنا ممنوع نہیں بلکہ صحیح اور درست ہے، جیسے چیف جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس (رومن کیتھولک مذہب سے تعلق رکھنے والا ) اور جسٹس رانا بھگوان جو کہ ہندوں مذہب سے تعلق رکھنے والے تھے اور ۔۔۔

(1)     چنانچہ علامہ برھان الدین المرغینانی الحنفی ؒ (المتوفی 593ھ) فرماتے ہیں کہ کافر اور غلام او ذمی کو فیصل بنانا جائز نہیں ۔ قال ولا یجوز تحکیم الکافر والعبد والذمی (الھدایۃ جلد 3/ص108)

(2)        اور حضرت العلامہ المحقق ابن الھمام الحنفی (المتوفی 861 ھ) یہی عبارت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں فلا یجوز تحکیم الکافر والعبد الذمیّ (فتح القدیر جلد 7/ص316)

(3)        اور حضرت العلامہ اکمل الدین الحنفی ؒ (المتوفی 786ھ) بھی اسی طرح تحریر فرماتے ہیں لا یجوز تحکیم الکافر والعبد (العنایۃ جلد 7/ص316)

(4)       اور علامہ الفقیہ ابوبکر الحدادی الحنفی المتوفی (800ھ) بھی یہی مضمون تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں لا یجوز تحکیم الکافر (الجوھرۃ النیرۃ جلد 2/ص246)

(5)      اور العلامہ المحدث بدر الدین العینی الحنفی (المتوفی (855ھ) بھی صاحب الھدایۃ کی عبارت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ولا یجوز تحکیم الکافر والعبد الخ (البنایۃ جلد 3/ص59)

(6)      اور اسی طرح العلامہ الفقیہ عبد الغنی الحنفی (المتوفی 1298ھ) بھی فرماتے ہیں ۔ (ولا یجوز تحکیم الکافر ) الحربی و (العبد) مطلقا (والذمی) الا ان یحکمہ ذمیان ۔ (اللباب فی شرح الکتاب جلد 4/ص89)

(تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

جمہوریت کی تعریف[سمول]

سوال:کیا انتخابی نشان سیاسی نظام یا جمہوری نظام کے تحت اسلامی نظام کا نفاذ ممکن ہے؟

جواب : حامد اومصلیا:  انتخابات کے ذریعے اسلامی نظام نافذ کرنا ممکن نہیں کیونکہ حضرت العلامہ شاولی اللہ الدھلوی ؒ (المتوفی 1176ھ) حجۃ اللہ البالغۃ میں فرماتے ہیں جبکہ سہر انسانوں کے بڑے ہجوم کا نام ہے سو ان سب کی رائے کا سنت کی حفاظت ہر متفق ہو جانا ناممکن ہے۔ قال ولما کانت المدینۃ ذات اجتماع عظیم لا یمکن ان یتفق رأیھم جمیعا علی حفظ السنۃ العادلۃ(حجۃ اللہ البالغہ) اور صدر وفاق المدارس العربیہ شیخ المشائخ حضرت مولانا سلیم اللہ خان ؒ فرماتے ہیں کہ :ایسا         ممکن نہین ہے ۔نہ انتخابا کے ذریعے اسلام لایا جاسکتا ہے۔نہ جمہوریت کے ذریعے اسلام لایا جاسکتا ہے۔ جمہوریت میں کثرت رائے کا  اعتبار ہوتا ہے اور کثرت جہلاءکی ہے جو دین کی اہمیت سے واقف نہیں ،ان سے کوئی توقع نہیں ہے۔  (ماہنامہ سنابل کراچی مئی 2013ءجلد 8شمارہ نمبر 11ص33)

اور مفتی اعظم حضرت مولانا نظام الدین شامزیؒ فرماتے ہیں کہ دنیا میں اللہ تبارک وتعالی کا دین ووٹ کے ذریعے سے مغربی جمہوریت کے ذریعے سے غالب نہیں ہوگا ۔اس لئے کہ اس دنیا کے اندر اللہ کے دشمنو کی اکثریت ہے۔فساق وفجار کی اکثریت ہے اور جمہریت جو ہے وہ بندوں کو گننے کا نام ہے تولنے کا نہیں ۔دنیا مین جب بھی اسلام غلاب ہوگا تو اس کا واحد راستہ اللہ کے نبی ﷺ نے اختیار کیا تھا اور وہ راستہ جہاد کا راستہ ہے۔ (ماہنامہ سنابل کراچی ،مئی2013جلد8ص33-34)

(تالیف۔ متعلم زاہداللہ درویش وزیرستانی)

سواد اعظم سے کیا مراد ہے۔[سمول]

سوال    :کیا سواد اعظم سے کثیر جماعت مراد ہے جیسے بعض لوگ ’’جمیعت علماء اسلام ‘‘وغیرہ مراد کرتے ہیں یا اس سے اھل الحق مراد ہے خواہ یہ جماعت ہو یا اس کے علاوہ ہو؟

الجوب :حامدا و مصلیا : سواد اعظم تمام اہلسنت والجماعت مراد ہےاور اس سے خاص جماعت مراد کرنا کمعلمی اور قصور فھم کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اہلسنت والجماعت اہل حق ہے یعنی احناف، موالک، شوافع، حنابلہ، کثر اللہ  سواد ھم اہل حق اور اس کی اتباع کرنا سواد اعظم کی اتباع کرنا متصور ہوگا اور یہ فرقہ ناجیہ ہے اور یہی معنی محدثین اور فقہاء کے نزدیک معتبر اور معتمد ہے۔

(1)     چنانچہ حضرت علامہ ظفر عثمانیؒ سواد اعظم کے معنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’السواد الاعظم‘‘ عربی زبان میں’’ عظیم ترین جماعت ‘‘ کو کہا جاتا ہے ۔یہاں مسلمانوں کا وہ فرقہ مراد ہے جو آنحضرت ﷺکی سنت اور صحابہ کرام کے طریقہ کو حق اور واجب الاتباع سمجھتا اور اس کی مخالفت کو باطل قرار دیناہو(امداد الاحکام جلد1حصہ اول ص78)

(2)      اور حضرت مولانا مفتی محمد ارشاد قاسمی صاحب فرماتے ہیں کہ :سواد اعظم سے صحابہ ؓ تابعین ؒ اور ان کے طریق پر چلنے والے مراد ہیں۔اس سے مراد وہ اہل بدعت نہیں جنہوں نے دین میں بدعات کو داخل کردیا ،سنت میں تغافل برتا (اسوہ حسنہ المعروف بہ شمائل کبری جلد4-3ص464)

(3)      اور حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ سواد اعظم کا معنی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امت کا سواد اعظم ہی اہل سنت والجماعت ہے ۔اور دور اوّل سے اب تک امّت کا سواداعظم حضرات ائمہ اربعہ کے متبعین ہی کو سمجھا گیا ہے۔ اور ائمہ اربعہ کےمتبعین کے علاوہ دنیا کے اندر مختلف فرقے جو ائے ہیں ان میں سے کسی کو اہل حق نہیں سمجھا گیا ہے۔وہ سب کے سب طائفہ زائفہ ہٰن (مجموعہ مقالات امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ جلد 2ص214۔

(4)      حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ فرماتے ہیں کہ رسوال ﷺ کا ارشاد ہے اتبعو السواد الاعظم (مشکوۃ حدیث نمبر۱۷۴با ب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) بڑے جھتے کی پیروی کرو ۔اور چونکہ ان مذاہب اربعہ کے سوا تمام مذاہب فنا ہو چکے ہیں اس لئے ان کا اتباع سواد اعظم کا اتباع ہے ۔اور ان سےخروج سواد اعظم سے خروج ہوگا۔(تحفۃ الالمعی جلد1ص 88)

(5)        اور حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی صاحب فرماتے ہیں کہ سواد اعظم امت کا با عظمت اور جلیل القدر طبقہ ہے جو صحابہ کرام ، ائمہ مجتہدین ، محدثین و فقہاء اور اہل حق مشائخ و صوفیہ کی عظیم جماعت پر مشتمل ہے جس کی اصول دین میں ایک راہ متعین ہے، اور عددی لحاظ سے بھی نیز علم و فضل ، زہد و تقویٰ ، خشیت  و  للہیت کے اعتبار سے بھی امت کا کوئی فرقہ اس کا ہم پا نہیں۔ اور اسی مجموعہ کو ہم’’ اہل السنت والجماعت‘‘سے تعبیر کرتے ہیں۔ سواد اعظم کی راہ سے الگ نہیں ہونا چاہیے۔  (سیدنا امام اعظم ابو حنیفہؒ کی محدثانہ جلالت شان ۔ ص512)

(6)      قالوا (أی الصحابۃ ؓ) یا رسول اللہ ، ومن السوار الاعظم؟ قال : (من کان علی ما أنا علیہ، و اصحابی من لم یمار فی دین اللہ ، ومن لم یکفر احداً من اھل التوحید بذنب غفر لہ) (المعجم الکبیر للطبرانی جلد 8/152)

(7)      قالوا: یارسول اللہ: من السوار الاعظم؟ قال: ما أنا علیہ الیوم واصحابی، من لم یمار فی دین اللہ ۔(الابانۃ الکبری لابن بطۃ ۔ جلد 2/ص489)

(8)      قال العلامۃ ابراھیم الغرناطی المالکی المتوفی 790 : ان الجماعۃ ھی (جماعۃ) الصحابۃ علی الخصوص ، فانھم الذین اقاموا الدین واسوا اوتادہ، وھم الذین لا یجتمعون علی ضلالۃ اصلاً ،و یمکن فیمن سواھم ذلک۔ (الاعتصام للشاطبی۔ ت الشقیر جلد3/ص212)

(9)    قال شیخ الاسلام ابن حجر الھیثمی المتوفی 974ھ:فاحذر ان تکون الا مع السواد الاعظم من ھذہ الامۃ اھل السنۃ والجماعۃ۔ (الصواعق المحرقۃ علی اھل الرفض ۔ 2/533)

تھذیب الاخلاق ، تدبیر المنزل، سیاست مدنی میں التزام شریعت اور تبری عن ادیان اخر یعنی تمام نظاموں سے برائت اختیار کرنا فرض ہے۔ جیسے سوشلزم اور نظام سرمایہ داری اور نظام جمہوریت وغیرہ لَآ إِكْرَاهَ فِى الدِّين ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَىِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطّٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ البقرة؛ 256

ترجمہ: دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضع ہو چکا ،اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کری کو تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں، اور اللہ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

وقال رسول اللہ ﷺ:بنی الاسلام علی خمس، علی أن یعبد اللہ ، و یکفر بما دونہ، واقام الصلوۃ، وایتاء الزکاۃ، و حج البیت، وصوم رمضان۔ (رواہ مسلم جلد 1/ص32)

ترجمہ: آپ ﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے(1) یہ کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے علاوہ کا انکار کیا جائے (2) اور نماز قائم کرنا (3) اور زکات ادا کرنا (4) اور حج کرنا (5) اور رمضان کے روزے رکھنا ۔

اور اسی طرح جمہور احناف کثراللہ سوادھم کا مذہب یہ ہے جیسے امام طحاویؒ شرح معانی الاثار میں فرماتے ہیں:۔ کہ حضرت بہر بن حکیم اپنے والد سے اور وہ ان کے دارہ سے نقل کرتے ہیں، کہ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اسلام کی نشانی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کہ تم کہو میں نے اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دیا، اور میں ہر دین کو چھوڑ بیٹھا، اور تم نماز پڑھو، زکات دو، اور مشرکین کے ساتھ رہائش چھوڑ کر مسلمانوں کے پاس آجاؤ۔(امام طحاویؒ فرماتے ہیں کہ ) تخلی تمام ادیان کو چھوڑ دینا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو کوئی بھی اسلام کے علاوہ ہر دین کو نہیں چھوڑے گا اس سے اس کا اسلام میں داخل ہونا نہیں جانا جائے گا۔ یہ امام ابو حنیفہؒ ، امام ابو سف ، امام محمد   رحمھم اللہ    کا قول ہے۔

(1) قال حدثنا بھز بن حکیم، عن ابیہ، عن جدہ قال: قلت یا رسول اللہ، ما ایۃ الاسلام؟ قال "ان تقول اسلمت وجھی للہ، وتخلیت، و تقیم الصلاۃ، و تؤتی الزکاۃ، و تفادق المشرکین الی المسلمین" فلماکان جواب رسول اللہ ﷺ لمعاویۃ بن حیدہ ، لما سئل عن ایۃ الاسلام "ان تقول اسلمت وجھی للہ، وتخلیت، تقیم الصلاۃ، و تؤتی الزکاۃ و تفارق المشرکین الی المسلمین"وکان التخلی ھو ترک کل الادیان الی اللہ ثبت بذلک ان کل من لم یتخل مما سوی الاسلام ، لم یعلم بذلک دخولہ فی الاسلام، و ھذا قول ابی حنیفہ و ابی یوسف و محمد رحمۃ اللہ علیھم اجمعین (شرح معانی الاثار 3/216)

اور اس طرح فقہ حنفی کے سارے کتب میں یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔

(2) قال العلامۃ العینیؒ الحنفی من کبار المحدثین: ان جمھور علمئنا شرطوا فی صحۃ اسلامہ، بعد التلفظ بالشھادتین ، ان یقول: تبرأت عن کل دین سوی دین الاسلام (کتاب الجنائز عمدۃ القاری جلد 8/ص3)

(3) قال العلامۃ ملا خسروا  الحنفی: (فان تاب بالتبری عن کل دین سوی دین الاسلام او عما انتقل الیہ فبھا و نعمت والا ای وان لم یتب (قتل) (درر الحکام شرح غرر الاحکام جلد 1/ص 301)

(4) قال العلامۃ الفقیہ عبد الرحمنؒ المعروف بدماد افندی الحنفی: من بدل دینہ فاقتلوہ ( وتوبتہ بالتبرؤ) بعد الاتیان بالشھادتین ( عن کل دین سوی دین الاسلام )۔ (مجمع الانھار فی شرح ملتقی الابحر جلد 1 / ص 681)

(5) قال العلامۃ الفقیہ ابراھیم الحلبی الحنفیؒ:فان استمھل حبس ثلاثۃ ایام فان تاب والا قتل و توبتہ بالتبری عن کل دین سوی الاسلام (ملتقی الابحر جلد 1/488)

(6) قال العلامۃ ابن عابدین الحنفیؒ:واسلامہ ان یتبرأ عن الادیان سوی الاسلام (او عما انتقل الیہ) بعد تلفظہ بالشھادتین ۔ (الدر المختار مع رد المختار 4/226)

تالیف[سمول]

متعلم زاہداللہ درویش الوزیرستانی